سوگواروں کے لیے غم سے نکلنے کا راستہ
ایک ناقابلِبرداشت غم
”میری اور صوفیہ * کی شادی کو 39 سے زیادہ سال ہو چُکے تھے جب ایک طویل بیماری کے بعد وہ زندگی کی بازی ہار گئیں۔ میرے دوستوں نے میری بہت مدد کی اور مَیں نے خود کو مصروف رکھا۔ لیکن پھر بھی ایک سال تک مجھے یوں محسوس ہوتا رہا کہ گویا کسی نے مجھے چیر کر رکھ دیا ہو۔ مجھے لگتا تھا کہ میرے جذبات میرے قابو میں نہیں تھے۔ اب اُن کی موت کو تقریباً تین سال ہو چُکے ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھار اچانک سے میرا دل غم سے نڈھال ہو جاتا ہے۔“—کوستاس۔
کیا آپ نے بھی کسی عزیز کو موت کی وجہ سے کھو دیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو شاید آپ بھی کوستاس کی طرح محسوس کرتے ہوں۔ چند ہی چیزیں ایسی ہیں جو ہمیں اپنے شریکِحیات، کسی رشتےدار یا قریبی دوست کی موت سے زیادہ دُکھی کر سکتی ہیں۔ اِس بات سے کچھ ایسے ماہرین بھی متفق ہیں جو اُس شدید تکلیف پر تحقیق کرتے ہیں جو غم کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ نفسیات کے امریکی جرنل کے ایک مضمون میں بتایا گیا کہ ”موت ایک ایسا نقصان ہے جس سے شدید تکلیف ہوتی ہے اور جس کے اثرات کو کبھی نہیں مٹایا جا سکتا۔“ جو شخص اِس ناقابلِبرداشت تکلیف سے گزر رہا ہوتا ہے، اُس کے ذہن میں شاید یہ سوال آئیں: ”مَیں کب تک ایسا محسوس کرتا رہوں گا؟ کیا مَیں کبھی اِس غم کو بُھلا پاؤں گا؟ مجھے تسلی کہاں سے مل سکتی ہے؟“
اِن سوالوں کے جواب اِس رسالے میں دیے گئے ہیں۔ اگلے مضمون میں بتایا جائے گا کہ اگر آپ نے حال ہی میں اپنے کسی عزیز کو موت کی وجہ سے کھو دیا ہے تو آپ کو کن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اِس کے بعد والے مضامین میں ایسے طریقوں پر بات کی جائے گی جن پر عمل کر کے آپ اپنے غم کی شدت کو کم کر سکتے ہیں۔
ہم خلوصِدل سے یہ اُمید کرتے ہیں کہ اِس رسالے میں دیے گئے مشوروں سے اُن لوگوں کو تسلی اور مدد ملے گی جو کسی عزیز کی موت کے بعد شدید کرب سے گزر رہے ہیں۔
^ پیراگراف 3 اِن مضامین میں کچھ فرضی نام اِستعمال کیے گئے ہیں۔