مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 48

گیت نمبر 97‏:‏ خدا کا زندگی‌بخش کلام

روٹیوں والے معجزے سے سبق

روٹیوں والے معجزے سے سبق

‏”‏مَیں زندگی کی روٹی ہوں۔‏ جو میرے پاس آتا ہے،‏ اُسے کبھی بھوک نہیں لگے گی۔“‏‏—‏یوح 6:‏35‏۔‏

غور کریں کہ ‏.‏ ‏.‏ ‏.‏

ہم یوحنا 6 باب میں بتائے گئے اُس واقعے سے کیا سیکھتے ہیں جس میں یسوع مسیح نے صرف پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں سے ہزاروں لوگوں کا پیٹ بھرا۔‏

1.‏ بائبل میں بتائے گئے لوگوں کے زمانے میں روٹی کتنی اہم ہوتی تھی؟‏

 بائبل میں بتائے گئے لوگوں کے زمانے میں روٹی بہت ہی اہم خوراک ہوتی تھی۔ (‏پید 14:‏18؛‏ لُو 4:‏4‏)‏ یہ اِتنی اہم خوراک تھی کہ کبھی کبھار بائبل میں کھانے کا حوالہ دینے کے لیے لفظ ”‏روٹی“‏ ہی اِستعمال کِیا گیا ہے۔ (‏متی 6:‏11‏)‏ اِس کے علاوہ یسوع مسیح نے جو معجزے کیے، اُن میں سے دو جانے مانے معجزوں میں روٹی بہت نمایاں تھی۔ (‏متی 16:‏9، 10‏)‏ اِن میں سے ایک معجزے کے بارے میں ہم یوحنا 6 باب میں پڑھتے ہیں۔ اِس معجزے پر غور کرتے وقت دیکھیں کہ آپ اِس سے کون سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏

2.‏ یسوع مسیح کو ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلانے کی ضرورت کب پڑی؟‏

2 جب یسوع مسیح کے رسول مُنادی کرنے کے بعد تھکے ہارے واپس آئے تو یسوع مسیح اُنہیں ایک کشتی میں لے کر گلیل کی جھیل کے پار چلے گئے تاکہ وہ تھوڑا آرام کر سکیں۔ (‏مر 6:‏7،‏ 30-‏32؛‏ لُو 9:‏10‏)‏ وہ شہر بیت صیدا کی ایک سنسان جگہ گئے۔ لیکن جلد ہی لوگوں کو اِس کے بارے میں پتہ چل گیا اور ہزاروں لوگ یسوع سے ملنے کے لیے وہاں پہنچ گئے۔ یسوع نے اِن لوگوں کو نظرانداز نہیں کِیا بلکہ وہ خوشی سے اُنہیں خدا کی بادشاہت کے بارے میں تعلیم دینے اور بیماروں کو شفا دینے لگے۔ جیسے جیسے شام ہونے لگی، شاگردوں کو لوگوں کے کھانے کی فکر ہونے لگی۔ شاید کچھ لوگوں کے پاس اپنے لیے تھوڑا بہت کھانا تھا لیکن زیادہ‌تر کو آس‌پاس کے گاؤں میں جا کر اپنے لیے کھانا خریدنے کی ضرورت تھی۔ (‏متی 14:‏15؛‏ یوح 6:‏4، 5‏)‏ اِس پر یسوع مسیح نے کیا کِیا؟‏

یسوع مسیح نے معجزہ کر کے لوگوں کو روٹی کھلائی

3.‏ یسوع مسیح نے لوگوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنے شاگردوں سے کیا کرنے کو کہا؟ (‏سرِورق کی تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

3 یسوع مسیح نے اپنے رسولوں سے کہا:‏ ”‏[‏لوگوں کو]‏کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ لوگ اُن کو کھانا دیں۔“‏ (‏متی 14:‏16‏)‏ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہاں تقریباً 5000 آدمی تھے اور عورتوں اور بچوں کو ملا کر شاید وہاں 15 ہزار کے لگ بھگ لوگ تھے جن کے کھانے کا بندوبست کرنا تھا۔ (‏متی 14:‏21‏)‏ یسوع کے شاگرد اندریاس نے کہا:‏ ”‏اِس بچے کے پاس جَو کی پانچ روٹیاں اور دو چھوٹی مچھلیاں ہیں۔ لیکن اِن سے کیا بنے گا؟“‏ (‏یوح 6:‏9‏)‏ اُس زمانے میں جَو کی روٹیاں بہت عام ہوتی تھیں جنہیں غریب اور دوسرے لوگ باقاعدگی سے کھاتے تھے۔ اور اُس بچے کے پاس جو دو چھوٹی مچھلیاں تھیں، شاید اُنہیں نمک لگایا اور خشک کِیا گیا تھا۔ لیکن کیا اِتنے سے کھانے سے ہزاروں لوگوں کا پیٹ بھر سکتا تھا؟‏

یسوع مسیح نے لوگوں کو یہوواہ کے بارے میں تعلیم دی اور اِس کے بعد اُن کی ضرورتوں کو بھی پورا کِیا۔ (‏پیراگراف نمبر 3 کو دیکھیں۔)‏


4.‏ ہم یوحنا 6:‏11-‏13 سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (‏تصویروں کو بھی دیکھیں۔)‏

4 یسوع لوگوں کی مہمان‌نوازی کرنا چاہتے تھے اِس لیے اُنہوں نے اُن سے کہا کہ وہ گھاس پر ٹولیوں کی صورت میں بیٹھ جائیں۔ (‏مر 6:‏39، 40؛‏ یوحنا 6:‏11-‏13 کو پڑھیں۔)‏ اِس کے آگے بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یسوع کے پاس جو روٹی اور مچھلی تھی، اُس پر اُنہوں نے اپنے باپ یہوواہ سے دُعا کی۔ ایسا کرنا بالکل مناسب تھا کیونکہ اصل میں یہوواہ ہی سب کو خوراک دیتا ہے۔ یسوع نے ہماری لیے کتنی اچھی مثال قائم کی ہے نا کہ ہمیں کھانا کھانے سے پہلے یہوواہ سے دُعا کرنی چاہیے پھر چاہے ہم اکیلے ہوں، اپنے گھر والوں کے ساتھ ہوں یا دوسرے ہمارے آس‌پاس ہوں؟ پھر یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو لوگوں میں کھانا تقسیم کرنے کے لیے کہا اور سب نے پیٹ بھر کر کھایا۔ یسوع نے تو لوگوں کو اِتنا زیادہ کھانا دیا کہ کچھ بچ بھی گیا۔ یسوع اِسے ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے اِس لیے اُنہوں نے شاگردوں سے کہا کہ وہ بچا ہوا کھانا جمع کر لیں تاکہ اِسے بعد میں کھایا جا سکے۔ اِس طرح یسوع نے چیزوں کو سمجھ‌داری سے اِستعمال کرنے کے حوالے سے ہمارے لیے بہت اچھی مثال قائم کی۔ اگر آپ ماں باپ ہیں تو کیوں نہ اپنے بچوں کے ساتھ اِس واقعے کو پڑھیں اور اِس بارے میں بات کریں کہ ہم یسوع سے دُعا کرنے، مہمان‌نوازی کرنے اور فراخ‌دلی دِکھانے کے حوالے سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہوئے کھانا کھانے سے پہلے دُعا کرتا ہوں؟“‏ (‏پیراگراف نمبر 4 کو دیکھیں۔)‏


5.‏ (‏الف)‏یسوع کے شان‌دار معجزوں کو دیکھ کر لوگ کیا کرنا چاہتے تھے؟ (‏ب)‏یسوع مسیح نے کیا کِیا؟‏

5 لوگ یسوع مسیح کے تعلیم دینے کے انداز سے اور اُن کے معجزوں سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ نے وعدہ کِیا تھا کہ خدا ایک خاص نبی بھیجے گا۔ اِس لیے شاید وہ سوچنے لگے ہوں کہ ”‏کیا یسوع ہی وہ نبی ہیں؟“‏ (‏اِست 18:‏15-‏18‏)‏ اگر اُنہوں نے ایسا سوچا ہوگا تو یقیناً اُنہیں لگا ہوگا کہ یسوع اُن کے لیے بہت زبردست حکمران ثابت ہوں گے اور شاید اُن کی پوری قوم کا ہی پیٹ بھر سکیں گے۔ اِس لیے ”‏لوگ[‏یسوع]‏کو زبردستی بادشاہ بنانا چاہتے“‏ تھے۔ (‏یوح 6:‏14، 15‏)‏ اگر یسوع بادشاہ بن جاتے تو ایک طرح سے وہ سیاسی معاملے میں یہودیوں کی طرف‌داری کر رہے ہوتے جو رومی حکومت کے تحت تھے۔ تو کیا یسوع لوگوں کے اِصرار کرنے پر بادشاہ بن گئے؟ بالکل نہیں۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یسوع ”‏اکیلے ایک پہاڑ پر چلے گئے۔“‏ حالانکہ لوگوں نے یسوع پر بادشاہ بننے کا بہت دباؤ ڈالا لیکن یسوع سیاسی معاملوں میں نہیں اُلجھے۔ اُنہوں نے واقعی ہمارے لیے بہت اچھی مثال قائم کی۔‏

6.‏ ہم یہ کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنا چاہتے ہیں؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

6 بے‌شک آج لوگ ہم سے یہ نہیں کہیں گے کہ ہم کوئی معجزہ کر کے اُن کے لیے کھانا فراہم کریں یا کسی بیمار کو شفا دیں اور نہ ہی وہ ہمیں بادشاہ یا حکمران بنانا چاہیں گے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ ہم پر دباؤ ڈالیں کہ ہم کسی سیاسی پارٹی کو ووٹ دیں یا کسی ایسے حکمران کی حمایت کرنے کے لیے آواز اُٹھائیں جو اُن کے خیال میں ایک اچھا حکمران ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن یسوع نے اِس حوالے سے ہمارے لیے اچھی مثال قائم کی۔ اُنہوں نے ہر طرح کے سیاسی معاملے میں پڑنے سے صاف اِنکار کر دیا اور یہ تک کہا:‏ ”‏میری بادشاہت کا اِس دُنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“‏ (‏یوح 17:‏14؛‏ 18:‏36‏)‏ یسوع کے پیروکاروں کو بھی سیاسی معاملوں کے حوالے سے اُن جیسی سوچ اپنانی چاہیے اور قدم اُٹھانے چاہئیں۔ ہم صرف خدا کی بادشاہت کی حمایت کرتے ہیں، اِس کے بارے میں دوسروں کو بتاتے ہیں اور اِس کے آنے کے لیے دُعا کرتے ہیں۔ (‏متی 6:‏10‏)‏ آئیے پھر سے اُس واقعے پر غور کرتے ہیں جس میں یسوع مسیح نے لوگوں کو معجزہ کر کے روٹی دی تھی۔ دیکھیں کہ آپ اِس واقعے سے اَور کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏

یسوع مسیح نے سیاسی معاملوں میں طرف‌داری نہیں کی اور اِس طرح اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کے لیے عمدہ مثال قائم کی۔ (‏پیراگراف نمبر 6 کو دیکھیں۔)‏


‏”‏روٹیوں والے معجزے کا مطلب“‏

7.‏ یسوع مسیح نے کیا کِیا اور یہ دیکھ کر رسولوں نے کیا کِیا؟ (‏یوحنا 6:‏16-‏20‏)‏

7 لوگوں کی بِھیڑ کو کھانا کھلانے کے بعد یسوع مسیح نے اپنے رسولوں کو کفرنحوم کے لیے روانہ ہونے کو کہا لیکن وہ خود پہاڑ پر چلے گئے کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگ اُنہیں بادشاہ بنائیں۔ ‏(‏یوحنا 6:‏16-‏20 کو پڑھیں۔)‏ جب رسول کشتی پر سوار تھے تو جھیل میں طوفان آ گیا۔ لہریں کافی اُونچی تھیں اور ہوا کا رُخ اُن کے خلاف تھا۔ پھر یسوع پانی پر چل کر اُن کے پاس جانے لگے اور اُنہوں نے پطرس رسول کو بھی پانی پر چل کر اپنے پاس آنے کے لیے کہا۔ (‏متی 14:‏22-‏31‏)‏ جیسے ہی یسوع کشتی پر سوار ہوئے، طوفان تھم گیا۔ اِس پر شاگرد بہت حیران ہوئے اور کہنے لگے:‏ ”‏آپ واقعی خدا کے بیٹے ہیں!‏“‏ a (‏متی 14:‏33‏)‏ یہ بڑی دلچسپی کی بات ہے کہ شاگردوں نے یہ بات اُس وقت کہی جب اُنہوں نے یسوع کو پانی پر چلتے ہوئے دیکھا۔ اُنہوں نے یہ بات اُس وقت نہیں کہی جب یسوع نے معجزہ کر کے لوگوں کو کھانا کھلایا تھا۔ اِسی واقعے پر بات کرتے ہوئے مرقس نے کہا:‏ ”‏یہ دیکھ کر شاگرد بہت ہی حیران ہوئے کیونکہ وہ روٹیوں والے معجزے کا مطلب نہیں سمجھ پائے تھے بلکہ ابھی تک اُن کی سمجھ پر پردہ پڑا تھا۔“‏ (‏مر 6:‏50-‏52‏)‏ دراصل شاگرد یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ یہوواہ نے یسوع کو معجزے کرنے کے لیے بے‌پناہ طاقت دی ہوئی ہے۔ لیکن جلد ہی یسوع نے روٹیوں والے معجزے پر پھر سے بات کی جس سے ہم ایک اَور سبق سیکھتے ہیں۔‏

8-‏9.‏ لوگوں کی بِھیڑ یسوع کو کیوں ڈھونڈ رہی تھی؟ (‏یوحنا 6:‏26، 27‏)‏

8 یسوع نے جن لوگوں کو کھانا کھلایا تھا، اُن کا دھیان صرف اپنا پیٹ بھرنے اور اپنی خواہشوں کو پورا کرنے پر تھا۔ وہ کیسے؟ اگلے ہی دن وہ لوگ پھر سے اُس جگہ پہنچ گئے جہاں یسوع نے اُنہیں کھانا کھلایا تھا۔ لیکن وہاں اُنہیں یسوع اور اُن کے رسول نہیں ملے۔ اِس لیے لوگ شہر طبریہ سے آنے والی کشتیوں پر سوار ہو کر کفرنحوم کے لیے روانہ ہو گئے تاکہ یسوع کو ڈھونڈ سکیں۔ (‏یوح 6:‏22-‏24‏)‏ کیا وہ اِس لیے یسوع کو ڈھونڈ رہے تھے تاکہ وہ خدا کی بادشاہت کے بارے میں اَور زیادہ سیکھ سکیں؟ نہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ یسوع اُنہیں پھر سے روٹی کھلائیں۔ ہم یہ بات کیسے جانتے ہیں؟‏

9 غور کریں کہ جب لوگوں نے یسوع کو کفرنحوم میں ڈھونڈ لیا تو پھر آگے کیا ہوا۔ یسوع نے کُھل کر لوگوں سے کہا کہ وہ اُنہیں اِس لیے ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ یسوع اُنہیں اَور زیادہ کھانا کھلا سکیں۔ یسوع جانتے تھے کہ جو روٹی لوگوں نے ‏”‏پیٹ بھر کر“‏ کھائی ہے، وہ ایسی خوراک ہے جس کا فائدہ زیادہ دیر تک نہیں رہے گا۔ اِس لیے اُنہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ ’‏اُس کھانے کے لیے محنت کریں جس کے ذریعے ہمیشہ کی زندگی ملتی ہے۔‘‏ ‏(‏یوحنا 6:‏26، 27 کو پڑھیں۔)‏ یقیناً لوگوں کو یہ سُن کر بہت حیرانی ہوئی ہوگی کہ ایک ایسا کھانا ہے جو اُنہیں ہمیشہ کی زندگی دے سکتا ہے۔ لیکن یہ کیسا کھانا تھا اور یسوع کی باتیں سننے والے لوگ اِسے کیسے حاصل کر سکتے تھے؟‏

10.‏ لوگوں کو ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏ پانے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت تھی؟‏

10 لوگوں کو لگ رہا تھا کہ یسوع جس کھانے کا ذکر کر رہے ہیں، اُسے حاصل کرنے کے لیے اُنہیں کچھ کام کرنے ہوں گے۔ شاید اُن کے ذہن میں وہ کام تھے جن کا حکم موسیٰ کی شریعت میں دیا گیا تھا۔ مگر یسوع نے اُنہیں بتایا کہ سب سے اہم کام کون سا ہے۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جو کام خدا کو پسند ہے، وہ یہ ہے کہ آپ اُس شخص پر ایمان ظاہر کریں جسے اُس نے بھیجا ہے۔“‏ (‏یوح 6:‏28، 29‏)‏ یسوع خدا کے نمائندے تھے اور لوگوں کو ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏ پانے کے لیے اُن پر ایمان ظاہر کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ ایسی بات تھی جو یسوع پہلے بھی اُنہیں بتا چُکے تھے۔ (‏یوح 3:‏16-‏18،‏ 36‏)‏ بعد میں یسوع نے ہمیشہ کی زندگی پانے کے حوالے سے اَور بھی باتیں بتائیں۔—‏یوح 17:‏3‏۔‏

11.‏ یہودیوں نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ وہ صرف روٹی کھانے میں دلچسپی رکھتے تھے؟ (‏زبور 78:‏24، 25‏)‏

11 وہ یہودی یسوع کی اِس تعلیم کو نہیں مان رہے تھے کہ اُنہیں یسوع پر ایمان ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ اُنہوں نے یسوع سے پوچھا:‏ ”‏آپ ہمیں کون سا معجزہ دِکھائیں گے تاکہ ہم آپ کی بات پر یقین کریں۔“‏ (‏یوح 6:‏30‏)‏ پھر اُن لوگوں نے بتایا کہ موسیٰ کے زمانے میں اُن کے باپ‌دادا نے من کھایا تھا۔ یہ من بنی‌اِسرائیل کے ہر روز کی روٹی تھی۔ (‏نحم 9:‏15؛‏ زبور 78:‏24، 25 کو پڑھیں۔)‏ صاف ظاہر تھا کہ اِن لوگوں کے ذہن میں ابھی بھی اِسی بات کی فکر چل رہی تھی کہ اُنہیں روٹی ملے۔ اور پھر جب یسوع مسیح نے اِس بارے میں بات کی کہ اُن کا باپ ”‏آسمان سے اصلی روٹی دیتا ہے“‏ جس سے لوگوں کو ہمیشہ کی زندگی مل سکتی ہے تو لوگوں نے یہ بالکل بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اصل میں یسوع کی بات کا کیا مطلب ہے۔ (‏یوح 6:‏32‏)‏ اِن لوگوں کا دھیان اپنا پیٹ بھرنے پر اِتنا زیادہ تھا کہ اُنہوں نے یسوع کی بتائی ہوئی اُن سچائیوں کو بالکل نظرانداز کر دیا جو وہ اُنہیں سکھانا چاہ رہے تھے۔ ہم اِس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم کیا ہونا چاہیے؟‏

12.‏ یسوع مسیح نے کیسے ظاہر کِیا کہ ہمارے لیے سب سے اہم بات کیا ہونی چاہیے؟‏

12 تو یوحنا 6 باب میں یہ اہم سبق ہے:‏ یہوواہ کے حکم ماننا اور اُس سے دوستی کرنا ہماری زندگی میں سب سے اہم ہونا چاہیے۔ یاد کریں کہ یہی اہم بات یسوع مسیح نے اُس وقت واضح کی تھی جب اُنہوں نے شیطان کی طرف سے آنے والی آزمائشوں کا مقابلہ کِیا تھا۔ (‏متی 4:‏3، 4‏)‏ اور جب اُنہوں نے پہاڑ پر تقریر کی تھی تو تب بھی اُنہوں نے اِس بات پر زور دیا تھا کہ ہمارے لیے یہوواہ کے قریب جانا زندگی میں سب سے اہم بات ہونی چاہیے۔ (‏متی 5:‏3‏)‏ تو ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏مَیں جس طرح سے زندگی گزارتا ہوں، کیا اُس سے یہ نظر آتا ہے کہ مَیں یہوواہ کی دوستی کو اپنی خواہشوں سے زیادہ اہم سمجھتا ہوں؟“‏

13.‏ (‏الف)‏یہ کیوں غلط نہیں کہ ہم کھانے کا مزہ لیں؟ (‏ب)‏پولُس رسول نے ہمیں کس بات سے خبردار کِیا؟ (‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏6، 7،‏ 11‏)‏

13 یہ بالکل غلط نہیں کہ ہم اپنی ضرورتوں اور اُن چیزوں کے لیے دُعا کریں جن سے ہمیں خوشی ملتی ہے۔ (‏لُو 11:‏3‏)‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏اِنسان کے لیے اِس سے بہتر اَور کچھ نہیں کہ وہ کھائے پیے اور اپنی محنت سے لطف اُٹھائے“‏ کیونکہ یہ ”‏سچے خدا کی دین ہے۔“‏ (‏واعظ 2:‏24؛‏ 8:‏15؛‏ یعقو 1:‏17‏)‏ لیکن ہمیں اِن چیزوں کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ یہی بات پولُس رسول نے اُس وقت واضح کی جب اُنہوں نے اپنے ہم‌ایمانوں کو ایک خط لکھا۔ اُنہوں نے بنی‌اِسرائیل کی اُس بُری مثال کا حوالہ دیا جب وہ لوگ کوہِ‌سینا کے قریب تھے۔ پولُس نے مسیحیوں کو خبردار کِیا کہ وہ ”‏بُری چیزوں کی خواہش نہ کریں جیسے[‏بنی‌اِسرائیل]‏نے کی۔“‏ ‏(‏1-‏کُرنتھیوں 10:‏6، 7،‏ 11 کو پڑھیں۔)‏ یہوواہ خدا معجزہ کر کے بنی‌اِسرائیل کو کھانا دے رہا تھا لیکن اِسرائیلی اِتنے خودغرض اور لالچی تھے کہ کھانے کی یہ چیزیں اُن کے لیے پھندا بن گئیں۔ (‏گن 11:‏4-‏6،‏ 31-‏34‏)‏ اور اگر اُس واقعے کی بات کی جائے جب اِسرائیلیوں نے سونے کے بچھڑے کی پوجا کی تھی تو تب بھی اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ اُن کا دھیان یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے سے زیادہ کھانے پینے کی چیزوں اور موج مستی پر لگا ہوا تھا۔ (‏خر 32:‏4-‏6‏)‏ پولُس نے اپنے ہم‌ایمانوں کو خبردار کرنے کے لیے یہ مثالیں دیں کیونکہ وہ ایک بہت ہی اہم دَور میں رہ رہے تھے۔ بہت جلد 70ء میں یروشلم اور اِس میں موجود ہیکل نے تباہ ہو جانا تھا۔ آج ہم بھی ایک بہت ہی اہم دَور میں رہ رہے ہیں۔ بہت جلد اِس بُری دُنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اِس لیے ہمیں پولُس کی اِس آگاہی پر سنجیدگی سے دھیان دینا چاہیے۔‏

14.‏ نئی دُنیا میں ہم خوراک کے حوالے سے کس بات کی توقع کر سکتے ہیں؟‏

14 جب یسوع مسیح نے ہمیں یہوواہ سے یہ دُعا کرنے کے لیے کہا کہ ”‏ہمیں آج کی ضرورت کے مطابق روٹی دے“‏ تو وہ اُس وقت کی طرف اِشارہ کر رہے تھے جب یہوواہ کی ”‏مرضی .‏ .‏ .‏ ویسے ہی زمین پر“‏ بھی ہوگی جیسے آسمان پر ہو رہی ہے۔ (‏متی 6:‏9-‏11‏)‏ اُس وقت زمین کیسی ہوگی؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ زمین پر خدا کی مرضی پوری ہونے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہمیں اچھی خوراک ملے۔ یسعیاہ 25:‏6-‏8 سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کی بادشاہت میں مزےدار کھانے پینے کی چیزیں کثرت سے ہوں گی۔ زبور 72:‏16 میں پیش‌گوئی کی گئی ہے:‏ ”‏زمین پر بے‌حساب اناج ہوگا؛ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اناج کی بھرمار ہوگی۔“‏ کیا آپ اُس وقت کے منتظر ہیں جب آپ اِس اناج سے اپنا من‌پسند کھانا تیار کریں گے یا پھر کوئی ایسا کھانا بنائیں گے جسے آپ نے پہلے کبھی نہیں بنایا؟ یا آپ اپنے باغ لگائیں گے اور اُن کا پھل کھائیں گے؟ (‏یسع 65:‏21، 22‏)‏ اور اُس وقت صرف آپ ہی نہیں بلکہ زمین پر موجود ہر شخص اِن نعمتوں سے فائدہ اُٹھائے گا۔‏

15.‏ جب نئی دُنیا میں یہوواہ مُردوں کو زندہ کرے گا تو اُنہیں کیا سیکھنے کی ضرورت ہو گی؟ (‏یوحنا 6:‏35‏)‏

15 یوحنا 6:‏35 کو پڑھیں۔‏ ذرا پھر سے اُن لوگوں کے بارے میں سوچیں جنہیں یسوع مسیح نے روٹی اور مچھلی کھلائی تھی۔ اِن لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا؟ بھلے ہی ماضی میں اِن میں سے بہت سے لوگوں نے یسوع پر ایمان ظاہر نہیں کِیا تھا لیکن ہو سکتا ہے کہ نئی دُنیا میں یہوواہ اِن میں سے کچھ کو زندہ کرے اور آپ اِن سے ملیں۔ (‏یوح 5:‏28، 29‏)‏ اُس وقت اِن لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب ہے:‏ ”‏مَیں زندگی کی روٹی ہوں۔ جو میرے پاس آتا ہے، اُسے کبھی بھوک نہیں لگے گی۔“‏ اُنہیں یسوع کے فدیے پر ایمان ظاہر کرنا ہوگا یعنی اِس بات پر کہ یسوع نے اُن کے لیے اپنی جان دی۔ اُس وقت اُن سب لوگوں کو تعلیم دینے کا بندوبست کِیا جائے گا جنہیں یہوواہ مُردوں میں سے زندہ کرے گا یا جو نئی دُنیا میں پیدا ہوں گے۔ ذرا سوچیں کہ ہمیں اِن لوگوں کو یہوواہ کے بارے میں شان‌دار باتیں سکھا کر کتنی خوشی ملے گی!‏ یہ خوشی اُس خوشی سے بھی زیادہ ہوگی جو ہمیں کھانے پینے کی چیزوں سے ملے گی۔ بے‌شک نئی دُنیا میں یہوواہ اور اُس کے مقصد سے تعلق رکھنے والی باتیں زیادہ اہم ہوں گی۔‏

16.‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

16 ہم نے یوحنا 6 باب میں لکھے واقعے پر غور کِیا جس سے ہم نے کچھ اہم سبق سیکھے۔ لیکن یسوع مسیح نے ہمیشہ کی زندگی کے حوالے سے اَور بھی بہت کچھ سکھایا۔ اِن باتوں کو جتنے دھیان سے یسوع کے زمانے میں رہنے والے یہودیوں کو سننے کی ضرورت تھی اُتنے ہی دھیان سے ہمیں بھی سننے کی ضرورت ہے۔ اِس لیے اگلے مضمون میں بھی ہم یوحنا 6 باب پر ہی غور کریں گے۔‏

گیت نمبر 20‏:‏ ایک بیش‌قیمت تحفہ

a اِس دلچسپ واقعے کے بارے میں اَور جاننے کے لیے کتاب ‏”‏یسوع مسیح—‏راستہ،‏ سچائی اور زندگی“‏ کے صفحہ نمبر 131 کو اور کتاب ‏”‏اِن جیسا ایمان ظاہر کریں“‏ کے صفحہ نمبر 185 کو دیکھیں۔‏