حشرات سے لگنے والی بیماریاں—ایک بڑھتا ہوا مسئلہ
حشرات سے لگنے والی بیماریاں—ایک بڑھتا ہوا مسئلہ
لاطینی امریکہ کے ایک گھر میں یہ سونے کا وقت ہے۔ ایک ماں بڑے پیار سے اپنے بچے کو بستر پر لٹا کر شببخیر کہتی ہے۔ مگر تاریکی میں سیاہ رنگ کا ایک انچ سے بھی چھوٹا کیڑا (کسنگ بگ) پلنگ کے اُوپر چھت کی دراڑ سے گِر پڑتا ہے۔ یہ سوتے ہوئے بچے کے مُنہ پر گِرتا ہے اور اُسکی نرموملائم جِلد پر کاٹ لیتا ہے۔ جب کیڑا خون چوس رہا ہوتا ہے تو وہ اپنا طفیلی فضلہ بھی خارج کرتا جاتا ہے۔ نیند ہی میں لڑکا اپنے مُنہ کو کھجانے لگتا ہے اور یوں جراثیم والے فضلے کو اپنے زخم میں لیجاتا ہے۔
اس ایک واقعے کے ساتھ ہی بچہ شاگاز کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایک یا دو ہفتے کے اندر اندر اُسے تیز بخار ہو جاتا اور اُسکے جسم پر سوجن ہو جاتی ہے۔ اگر وہ بچ جاتا ہے تو یہ جراثیم اُسکے دل، اعصابی نظام اور اندرونی نسیج میں جگہ بنا لیتا ہے۔ کسی ظاہری علامت کے بغیر ۱۰ سے ۲۰ سال گزر سکتے ہیں۔ مگر اسکے بعد اُسکے نظامِانہضام میں زخم ہو جاتے، دماغ انفیکشن کا شکار ہو جاتا اور آخر میں وہ حرکتِقلب بند ہو جانے سے وفات پا جاتا ہے۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد آپ کو یہ بتانا ہے کہ شاگاز بیماری کیسے لگ سکتی ہے۔ لاطینی امریکہ میں لاکھوں لوگ اس جانلیوا بوسے کے خطرے میں مبتلا ہوتے ہیں۔
انسان کے کثیرپا ساتھی
انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے کہ ”بیشتر صورتوں میں انسان کو نامیاتی اجسام کے ذریعے بخار ہوتا ہے جو حشرات کی وجہ سے پھیلتے ہیں۔“ عام طور پر لوگ ”حشرات“ کی اصطلاح مکھیوں، مچھروں، جوؤں اور بھونروں جیسے چھ ٹانگوں والے اصلی کیڑےمکوڑوں کے علاوہ آٹھ ٹانگوں والے کرمک اور چچڑ کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ سائنسدان ان سب کو مفصلپایہ (آرتھوپوڈا) کی بڑی فہرست میں شامل کرتے ہیں جو حیوانات کا سب سے بڑا گروہ ہے جس میں کمازکم ایک ملین سے زیادہ اقسام شامل ہیں۔
حشرات کی بڑی تعداد انسان کیلئے بےضرر ہے اور چند ایک تو بہت مفید ہیں۔ ان کے بغیر ایسے پودوں اور درختوں کی افزائش نہیں ہو سکتی اور اُنہیں پھل نہیں لگ سکتا جن پر انسان اور جانور خوراک کیلئے انحصار کرتے ہیں۔ بعض حشرات فضلے کو استعمال کے قابل بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ بہت سے حشرات صرف پودوں ہی سے خوراک حاصل کرتے ہیں جبکہ چند دیگر حشرات کو کھاتے ہیں۔
بیشک ایسے حشرات ہیں جو بڑی تعداد میں محض اپنی موجودگی یا تکلیفدہ ڈنک کی وجہ سے انسان اور حیوان دونوں کو تنگ کرتے ہیں۔ بعض فصلوں پر تباہکُن حملہ کرتے ہیں۔ تاہم، سب سے بدترین وہ حشرات ہیں جو بیماری اور موت پھیلاتے ہیں۔ یو.ایس. سنٹرز فار ڈیزز
کنٹرول اینڈ پریونشن کا ڈواین گبلر بیان کرتا ہے کہ حشرات سے پھیلنے والی بیماریاں ”سترویں سے لیکر بیسویں صدی تک باقی تمام اسباب کے مقابلے میں زیادہ انسانی بیماری اور اموات کی ذمہدار تھیں۔“اس وقت، ہر ۶ میں سے ایک شخص حشرات سے لگنے والی بیماریوں سے متاثر ہے۔ انسانی تکلیف برپا کرنے کے علاوہ، حشرات سے لگنے والی بیماریاں بالخصوص ترقیپذیر ممالک میں مالی بوجھ کا باعث بھی بنتی ہیں جو اسے بالکل برداشت نہیں کر سکتے۔ اسکا ایک حملہ ہی بہت مہنگا پڑتا ہے۔ مغربی بھارت میں ۱۹۹۴ کے ایک ایسے ہی واقعہ کی بابت کہا جاتا ہے کہ اس نے مقامی اور عالمی معیشت کے کروڑوں ڈالر خرچ کروا دئے تھے۔ صحت کے عالمی ادارے (ڈبلیوایچاو) کے مطابق، جبتک ایسے مسائل پر قابو نہیں پا لیا جاتا دُنیا کے غریب ممالک معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتے۔
حشرات ہمیں کیسے بیمار کرتے ہیں
بنیادی طور پر دو طریقوں سے حشرات بیماری منتقل کرنے یا پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ پہلا طریقہ میکانکی منتقلی ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے، بالکل اُسی طرح جیسے لوگ اپنے جوتوں کے ذریعے گھر میں گرد لیجاتے ہیں، ”مکھیاں اپنے پیروں کیساتھ لاکھوں نامیاتی اجسام اُٹھائے ہوتی ہیں جوکہ بڑی حد تک بیماری کا سبب بنتے ہیں۔“ مکھیاں فضلے سے گندگی اُٹھا سکتی اور جب وہ ہمارے کھانے یا مشروب پر بیٹھی ہیں تو وہاں منتقل کر سکتی ہیں۔ اسطرح انسان ٹائیفائیڈ، پیچش اور ہیضے جیسی مُہلک اور کمزور کرنے والی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مکھیاں ککرے پھیلانے کا باعث بنتی ہیں جو دُنیا میں نابیناپن کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ککرے آنکھ میں آئیرس کے اگلے صاف حصے کارنیا کو زخمی کرنے سے نابینا کر سکتے ہے۔ دُنیابھر میں تقریباً ۰۰۰،۰۰،۰۰،۵۰ انسان اس موذی مرض میں گرفتار ہیں۔
غلاظت میں پھلنےپھولنے والے لالبیگ کی بابت بھی کہا جاتا ہے کہ وہ میکانکی انداز میں بیماری منتقل کرتے ہیں۔ علاوہازیں، ماہرین بالخصوص لالبیگ سے الرجک بچوں میں دمے کی بیماریوں میں خاطرخواہ اضافے کا ذکر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ۱۵ سالہ ایشلی کا تصور کریں جس نے دمہ کی بیماری کی وجہ سے سانس لینے میں تکلیف کے باعث کئی راتیں جاگ کر گزاری ہیں۔ جب اُسکا ڈاکٹر اُسکے پھیپھڑوں کی آواز سننے لگا تو اُسکی قمیض میں سے ایک لالبیگ نکل کر میز پر چلنے لگا۔
حشرات کے اندر بیماریاں
جب حشرات اپنے اجسام کے اندر وائرس، بیکٹیریا یا پیراسائٹس کو بڑھنے دیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے طریقے یعنی ڈنک مارنے یا کسی اَور ذریعے سے بھی بیماری پھیلا سکتے ہیں۔ بہت کم حشرات اس طریقے سے انسانوں میں بیماریاں منتقل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگرچہ مچھروں کی ہزاروں اقسام ہیں توبھی صرف اینوفیلس قِسم ہی ملیریا منتقل کرتی ہے جو تپِدق کے بعد دُنیا کی دوسری مُہلک بیماری ہے۔
تاہم، مچھروں کی دیگر اقسام اَور بہت سی مختلف بیماریاں منتقل کرتی ہیں۔ ڈبلیوایچاو بیان کرتا ہے: ”بیماری منتقل کرنے والے حشرات میں سے
مچھر سب سے بڑی وبال ہے جو ملیریا، زرد اور ہڈیتوڑ بخار پھیلاتا ہے۔ یہ دونوں بخار لاکھوں اموات کا باعث بنتے ہیں جبکہ ہر سال سینکڑوں ملین ان میں مبتلا ہوتے ہیں۔“ دُنیا کی آبادی کے کمازکم ۴۰ فیصد کو ملیریا اور تقریباً ۴۰ فیصد کو ہڈیتوڑ بخار کا خطرہ لاحق ہے۔ کئی مقامات پر لوگ دونوں امراض سے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔درحقیقت مچھر ہی وہ واحد حشرے نہیں جن میں بیماری کے جراثیم ہوتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی ایک مکھی ایسا پروٹوزوآ منتقل کرتی ہے جس سے بخار، وزن میں کمی اور آلکسی واقع ہوتی ہے اور یوں یہ بیماری ہزاروں لوگوں اور گروہوں کو اپنے ہرےبھرے کھیتوں سے غافل کر دیتی ہے۔ ریور بلائنڈنس کا سبب بننے والا جراثیم منتقل کرنے سے کالی مکھیوں نے تقریباً ۰۰۰،۰۰،۴ افریقیوں کی بینائی چھین لی ہے۔ سینڈ مکھیاں ایسا پروٹوزوآ لئے ہوتی ہیں جو لشمانیا معذوری، شکل بگڑنے اور اکثر جانلیوا بیماریوں کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں جو اس وقت دُنیابھر میں ہر عمر کے لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ یوبیکوئٹس پسو ٹیپورمز، اینسیفالائٹس، ٹیولاریمیا اور دیگر وباؤں کا باعث بنتا ہے جنکا تعلق طاعون سے ہے جس نے قرونِوسطیٰ کے دوران صرف چھ سال میں یورپی آبادی کی ایک تہائی کو نگل لیا تھا۔
جوئیں، کرمک اور چچڑ دیگر بیماریوں کے علاوہ مختلف قِسم کے ٹائیفس منتقل کر سکتے ہیں۔ دُنیابھر میں معتدل ممالک کے اندر چچڑ پریشان کرنے والی لائم ڈیزز کا باعث ہو سکتے ہیں جو ریاستہائےمتحدہ اور یورپ میں جراثیم سے لگنے والی سب سے عام بیماری ہے۔ ایک سویڈش مطالعے نے آشکارا کِیا کہ نقلمکانی کرنے والے پرندے ہزاروں میلوں تک چچڑ لیجا سکتے ہیں اور یوں ان میں موجود بیماریاں نئے علاقوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ بریٹینیکا بیان کرتا ہے، ”چچڑ مچھر کے علاوہ دیگر تمام آرتھوپوڈز سے زیادہ بیماریاں منتقل کرتے ہیں۔“ دراصل ایک چچڑ کے اندر تین مختلف اقسام کی بیماری والے جراثیم ہو سکتے ہیں اور یہ ایک ہی بار کاٹنے سے ان تمام کو منتقل کر سکتا ہے!
بیماری سے ”آزادی“
یہ حال ہی کی بات ہے کہ سائنسی طور پر ۱۸۷۷ میں یہ دریافت ہوا کہ حشرات بیماری منتقل کرتے ہیں۔ اُس وقت سے لیکر بیماریاں رکھنے والے یا منتقل کرنے والے حشرات پر قابو پانے یا انہیں ختم کرنے کیلئے بہت زیادہ مہمات چلائی گئی ہیں۔ سن ۱۹۳۹ میں، ایک ذخیرے میں جراثیمکش ڈیڈیٹی ڈال دیا گیا اور ۱۹۶۰ کے دہے میں افریقہ سے باہر کیڑےمکوڑوں سے لگنے والی بیماریوں کو صحتِعامہ کیلئے کوئی بڑا خطرہ خیال نہیں کِیا جاتا تھا۔ کیڑےمکوڑوں کو کنٹرول کرنے کی بجائے زیادہ زور ایمرجنسی مریضوں کا علاج کرنے پر دیا گیا اور یوں حشرات اور اُنکے رہنے کی جگہوں کی بابت دلچسپی اور سروے ماند پڑ گیا۔ نئی ادویات بھی دریافت ہو رہی تھیں اور ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ہر بیماری سے نپٹنے کیلئے سائنس کوئی ”جادوئی گولی“ ایجاد کر کے گی۔ دُنیا متعدی بیماری سے ”آزادی“ سے لطفاندوز ہو رہی تھی۔ مگر یہ آزادی ختم ہو گئی۔ اگلا مضون بات کریگا کہ کیوں۔
[صفحہ ۳ پر عبارت]
آجکل ہر ۶ میں سے ۱ شخص حشرات سے لگنے والی بیمای میں مبتلا ہے
[صفحہ ۳ پر تصویر]
دی کسنگ بگ
[صفحہ ۴ پر تصویر]
لالبیگ کی طرح عام مکھیوں کے بھی پاؤں کیساتھ بیماری پھیلانے والے جراثیم لگے ہوتے ہیں
[صفحہ ۵ پر تصویریں]
بہت سے حشرات کے اندر بیماری کے جراثیم ہوتے ہیں
کالی مکھیاں ریور بلائنڈنس کا باعث بنتی ہیں
مچھروں میں ملیریا، ہڈیتوڑ اور زرد بخار کے جراثیم ہوتے ہیں
جوؤں سے ٹائیفس پھیل سکتا ہے
پسو اینسیفالائٹس اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتا ہے
ایک افریقی مکھی بخار، وزن میں کمی اور آلکسی کا باعث بنتی ہے
[تصویر کا حوالہ]
WHO \TDR\LSTM
CDC\James D. Gathany
CDC\Dr. Dennis D. Juranek
CDC\Janice Carr
WHO\TDR\Fisher
[صفحہ ۴ پر تصویر کا حوالہ]
Clemson University - USDA Cooperative Extension Slide Series, www.insectimages.org