آتشبازی کا جنون
آتشبازی کا جنون
اولمپک کھیلوں کا آغاز ہو یا کوئی میلہ مویشیاں، امریکہ کا یومِآزادی ہو یا فرانس میں سیاسی انقلاب کی یادگار، جہاں کہیں خوشی کا موقع ہوتا ہے تو وہاں آتشبازی بھی ہوتی ہے۔ نئے سال کے جشن میں دُنیا کے تقریباً ہر بڑے شہر میں خاص طور پر خوب آتشبازی ہوتی ہے۔
انسان کب سے آتشبازی میں دلچسپی لینے لگا؟ اِن خوبصورت تماشوں میں کیا کچھ شامل ہے؟
ایک مشرقی رواج
بیشتر تاریخدانوں کا کہنا ہے کہ آتشبازی کا آغاز ہمارے سنِعام کی دسویں صدی میں چین میں ہوا۔ چین کے کیمیادانوں نے شورہ، گندھک اور کوئلے کو ملا کر ایک پاؤڈر تیار کِیا جسے بارود کہا جاتا ہے۔ خیال ہے کہ بارود کو مارکو پولو جیسے مغربی تاجروں نے یا پھر عربی تاجروں نے یورپ پہنچا دیا۔ نتیجتاً چودھویں صدی تک آتشبازی دیکھنے کا شوق تمام یورپ میں پھیل گیا۔
لیکن اِس پاؤڈر کے استعمال سے محض خوبصورت تماشے نہیں دکھائے گئے بلکہ اِس نے یورپ کی تاریخ کا رُخ بھی بدل دیا۔ فوجیوں نے بارود کو سیسے کی گولیاں برسانے، قلعوں کی دیواروں کو اُڑانے اور سیاسی طاقتوں کو کچلنے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق، ”قرونِوسطیٰ میں جس حد تک یورپ کی جنگوں میں بارود استعمال ہونے لگا اسی حد تک آتشبازی کا رواج بھی بڑھتا گیا۔ فتح کا جشن ہو یا اَمن کے زمانے میں خوشی کا موقع، ایسے موقعوں پر آتشبازی کرنے کیلئے فوج کے ماہرِبارود کو بلایا جاتا تھا۔“
اِس عرصے کے دوران چین میں بارود کو جنگ میں زیادہتر استعمال نہیں کِیا گیا۔ اٹلی کا ماتیو ریچی سولہویں صدی میں چین میں مشنری کے طور پر رہ رہا تھا۔ اُس نے لکھا: ”چین کے باشندے توپوں اور بندوقوں کے استعمال میں ماہر نہیں اِسلئے جنگ میں اِنکا استعمال کم ہی ہوتا ہے۔ لیکن اِنکے کھیلوں اور تہواروں پر بارود کثرت سے آتشبازی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ چین کے لوگ ان تماشوں کے بہت شوقین ہیں۔ . . . آتشبازی کے فن میں اُنکی مہارت لاجواب ہے۔“
آتشبازی کا نسخہ
شروع میں آتشبازوں کو اس آگ کے کھیل میں مہارت اور دلیری سے کام لینا پڑتا تھا۔ اُنہوں نے تجربہ سے دیکھا کہ بارود کے بڑے ذرّوں کو جب آگ لگائی جاتی ہے تو یہ آہستہ سے جلتے ہیں لیکن باریک ذرّوں کے جلتے ہی دھماکا ہوتا ہے۔ آتشبازوں نے بانس یا کاغذ کی ٹیوب کے ایک سرے میں بارود کے باریک ذرّے بھر دئے اور اِسکو بند کر دیا۔ ٹیوب کے نچلے سرے میں اُنہوں نے بارود کے بڑے ذرّے بھر دئے۔ جب اِس حصے کو آگ لگائی جاتی تو گیس پیدا ہوتی جسکی وجہ سے ہوائی تیزی سے اُوپر کی جانب بڑھنے لگتی۔ (آجکل اسی اُصول پر خلابازوں کو خلا میں بھیجا جاتا ہے۔) پھر جب اُونچائی میں گیس کی گرمائش سے باریک بارود جلنے لگتا تو ہوائی پھٹ جاتی۔
صدیوں سے آتشبازی بنانے کا عموماً یہ ہی طریقہ رہا ہے۔ لیکن اِس فن میں ترقی بھی نمایاں ہوئی ہے۔ چین کے لوگ محض سفید اور سنہرے رنگ کی آتشبازی بنانا جانتے تھے۔ اٹلی کے لوگوں نے رنگبرنگی آتشبازی ایجاد کی۔ اُنیسویں صدی کے آغاز میں اُنہوں نے بارود میں ایک خاص نمک (پوٹاشیم کلوریڈ) ملانا شروع کر دیا۔ ایسا کرنے سے جو مرکب تیار ہوتا ہے وہ اتنی حرارت سے جلتا ہے کہ آتشبازی میں ملی ہوئی دھات جل کر
گیس بن جاتی ہے۔ نتیجتاً ہوا میں رنگین شعلے جھڑنے لگتے ہیں۔ آجکل آتشبازی میں مختلف قسم کی دھاتیں ملائی جاتی ہیں جنکے جلنے سے شعلے لال، سفید، نیلا، ہرا اور پیلا رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔کمپیوٹر کی آمد نے آتشبازی کے فن کو اَور بھی ترقی دی ہے۔ آجکل، آتشباز ہاتھ سے آتشبازی کو آگ نہیں لگاتے بلکہ وہ کمپیوٹر کے ذریعے ایسا کرتے ہیں۔ یوں آتشبازی عین وقت پر شروع ہو سکتی ہے۔ اسطرح آتشبازی کا تماشا کسی موسیقی کی پیشکش کی لَے سے ہمآہنگ ہو جاتا ہے اور یوں لوگ ایسی پیشکش کو نہ صرف سُن بلکہ دیکھ بھی سکتے ہیں۔
مذہبی پسمنظر
مشنری ماتیو ریچی کے مطابق آتشبازی چین کی مذہبی تقریبات کا اہم جُز تھی۔ ایک رسالے میں لکھا تھا کہ ”چین کے لوگوں نے شیاطین کو ڈرا کر بھگانے کیلئے آتشبازی ایجاد کی تھی۔ اسلئے وہ اپنے نئے سال کا آغاز اور دوسری مذہبی تقریبات کا آغاز آتشبازی کیساتھ ہی کرتے تھے۔“ کتاب تمام مذاہب کے تہوار اور رواج (انگریزی زبان میں) میں کہا گیا ہے: ”جس وقت سے لوگوں نے بتوں کی پرستش شروع کی ہے اُس وقت سے اُنہوں نے اپنی مذہبی رسموں میں آگ کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اسلئے آتشبازی کی ایجاد کیساتھ یہ قدرتی بات تھی کہ اسکا تماشا بھی مذہبی جشنوں میں شامل ہو گیا تھا۔“
مسیحیوں نے جب آتشبازی کرنا شروع کی تو آتشبازوں کیلئے ایک محافظ ولی مقرر کِیا گیا۔ اسکے بارے میں ایک لغت یوں بیان کرتی ہے: ”[سینٹ بابرا] کے والد نے اُسے ایک بُرج میں قید کر رکھا تھا۔ جب اُس نے مسیحیت قبول کر لی تو اُسکے والد ہی نے اُسکو قتل کر دیا۔ ایسا کرنے کے بعد جب وہ گھر لوٹا تو آسمان سے بجلی چمکی اور وہ جل کر راکھ ہو گیا۔ اِسلئے سینٹ بابرا آتشیںاسلحہ کے بنانے اور استعمال کرنے والوں اور آتشبازوں کی ولی قرار دی گئی۔“
خرچ کی کوئی پرواہ نہیں
جشن چاہے مذہبی ہو یا دُنیاوی، عوام چاہتی ہے کہ آتشبازی کے مظاہرے بڑے سے بڑے اور اعلیٰ درجے کے ہوں۔ سولہویں صدی میں چین میں ہونے والے ایک آتشبازی کے مظاہرے کے بارے میں ماتیو ریچی نے لکھا: ”مَیں شہر ننجنگ میں اُنکے نئے سال کے جشن پر تھا۔ یہ چین کے لوگوں کا سب سے اہم تہوار ہے۔ مَیں نے اندازہ لگایا کہ اِس جشن کو منانے کیلئے اُنہوں نے آتشبازی میں جتنا بارود استعمال کِیا اُتنے بارود سے ایک جنگ کئی سال تک جاری رکھی جا سکتی تھی۔“ اسکے اخراجات کے بارے میں وہ کہتا ہے: ”جہانتک آتشبازی کا تعلق ہے انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ اِس میں کتنا خرچ اُٹھتا ہے۔“
آجکل بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سن ۲۰۰۰ میں شہر سڈنی کی بندرگاہ میں ایک جشن منانے کیلئے آتشبازی کے مظاہرے میں ۲۰ ٹن بارود استعمال ہوا اور دس لاکھ سے زائد لوگ اِس تماشے کو دیکھنے آئے۔ اسی سال میں امریکہ میں لوگوں نے ۰۰۰،۰۰،۵۰،۶۲ ڈالر خرچ کرکے آتشبازی کے مظاہروں میں سات کروڑ کلوگرام بارود استعمال کِیا۔ بیشک ہمارے جدید دَور میں بھی بہتیرے لوگ آتشبازی کے نہایت شوقین ہیں۔ اسلئے ماتیو ریچی کے یہ الفاظ آج بھی سچ ثابت ہو رہے ہیں: ”جہانتک آتشبازی کا تعلق ہے انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ اِس میں کتنا خرچ اُٹھتا ہے۔“
[صفحہ ۱۵ پر صرف تصویر ہے]