مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

پہاڑی علاقوں کے مسائل سے نپٹنا

پہاڑی علاقوں کے مسائل سے نپٹنا

پہاڑی علاقوں کے مسائل سے نپٹنا

بولیویا سے جاگو!‏ کا رائٹر

بیشمار سیاح پہاڑی علاقوں میں چھٹیاں گزارتے ہیں۔‏ کئی آرام کرنے اور دلکش مناظر سے لطف‌اندوز ہونے کیلئے پہاڑوں پر جاتے ہیں جبکہ دوسرے وہاں سکی پر پھسلتے یا کوہ‌پیمائی کرتے ہیں۔‏ ان سیاحوں کے علاوہ پہاڑی علاقوں کی وادیوں میں اور بلندیوں پر لاکھوں لوگ مستقل طور پر آباد ہیں۔‏ وہ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جو بادلوں سے بھی اُونچے ہوتے ہیں۔‏ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایسی اُونچائی پر رہنا انسان کی صحت کے علاوہ کھانا پکانے کے طریقے اور گاڑیوں کے انجن پر بھی اثر ڈالتا ہے۔‏ ایسا کیوں ہے اور آپ ان مشکلات سے کیسے نپٹ سکتے ہیں؟‏ سب سے پہلے ہم دیکھینگے کہ آیا پہاڑی علاقوں میں واقعی اتنے زیادہ انسان رہتے ہیں یا نہیں؟‏

بعض اُونچے علاقوں میں معاشی ترقی ہوئی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ میکسیکو سٹی میں لاکھوں لوگ ۰۰۰،‏۷ فٹ کی بلندی پر رہ رہے ہیں۔‏ امریکہ میں ڈینور،‏ کولوراڈو اور افریقہ میں نیروبی اور جوہانس‌برگ ایسے شہر ہیں جو ۰۰۰،‏۵ فٹ کی اُونچائی پر ہیں۔‏ ہمالیہ میں لاکھوں لوگ ۰۰۰،‏۹ فٹ کی بلندی پر رہتے ہیں۔‏ جنوبی امریکہ میں اَینڈیز کے پہاڑی علاقے میں ۰۰۰،‏۱۱ فٹ کی بلندی پر کئی بڑے شہر ہیں اور لوگ ایسی کانوں میں مزدوری کرتے ہیں جو ۰۰۰،‏۲۰ فٹ کی بلندی پر ہیں۔‏ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پہاڑی علاقوں میں بہت لوگ آباد ہیں۔‏ اِسلئے سائنسدان اس بات میں دلچسپی لینے لگے ہیں کہ انسانی بدن میں اُونچے مقامات پر رہنے سے کونسی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔‏ اُنہوں نے ہمارے جسم کے متعلق جو کچھ دریافت کِیا ہے اس سے ہمارے خالق کی حکمت ظاہر ہوتی ہے۔‏

صحت پر اُونچائی کے اثرات

اَینڈیز کے علاقے میں پہنچتے ہی بہتیرے لوگ ڈَگ نامی ایک آدمی کی طرح محسوس کرتے ہیں۔‏ ڈَگ کہتا ہے:‏ ”‏جب مَیں نے ہوائی‌اڈے پر اپنا سامان اُٹھایا تو مجھے چکر آنے لگے اور مَیں بےہوش ہونے ہی کو تھا۔‏ اگرچہ میں کچھ دیر کے بعد ٹھیک ہو گیا لیکن مجھے ایک دو ہفتے تک سردرد ہوتا رہا اور رات کو گہری نیند بھی نہیں آتی تھی۔‏ مَیں اچانک جاگ جاتا کیونکہ مجھے ایسا لگتا جیسےکہ میرا سانس رُک گیا ہو۔‏ دو مہینے تک مجھے بھوک نہیں لگی،‏ مَیں جلد تھک جاتا اور مجھے بہت نیند آتی تھی۔‏“‏ اُس کی بیوی کیتھی بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں سوچا کرتی تھی کہ اُونچے علاقوں میں رہنے سے جو بیماریاں ہوتی ہیں وہ محض لوگوں کا وہم ہیں۔‏ اب مجھے پتہ چل گیا ہے کہ ایسا بالکل نہیں۔‏“‏

اگر آپکے ساتھ بھی ایسا واقع ہوتا تو کیا آپ پریشان نہ ہوتے؟‏ ڈاکٹروں کے مطابق ڈَگ رات کو اسلئے باربار جاگتا تھا کیونکہ وہ سوتے وقت کچھ لمحوں کیلئے سانس لینا بند کر دیتا تھا۔‏ اُونچے علاقوں میں آنے والے نئے لوگوں کا اکثر یہی حال ہوتا ہے۔‏

بعض لوگوں کو اُونچے علاقوں میں جانے سے کچھ نہیں ہوتا۔‏ دوسرے لوگوں کی صحت ۰۰۰،‏۶ فٹ پر پہنچتے ہی خراب ہو جاتی ہے۔‏ درحقیقت،‏ ۰۰۰،‏۱۱ فٹ کی بلندی پر پہنچنے والوں میں سے آدھی تعداد کا یہ تجربہ ہوتا ہے۔‏ دلچسپی کی بات ہے کہ جب پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگ محض ایک دو ہفتے نشیبی علاقوں میں گزارنے کے بعد واپس اُونچے علاقوں میں لوٹتے ہیں تو اکثر اُنکی بھی صحت خراب ہو جاتی ہے۔‏ کیوں؟‏

صحت پر کیوں بُرا اثر پڑتا ہے

اُونچے علاقوں کی ہوا میں آکسیجن کی کمی صحت پر بُرا اثر ڈالتی ہے۔‏ اُونچائی میں ہوا کا دباؤ کم ہو جاتا ہے اسلئے سطحِ‌سمندر کی نسبت ۵۰۰،‏۶ فٹ کی بلندی پر ہوا میں آکسیجن ۲۰ فیصد کم اور ۰۰۰،‏۱۳ فٹ کی بلندی پر یہ ۴۰ فیصد کم ہوتی ہے۔‏ آکسیجن کی کمی تمام جسم پر اثرانداز ہوتی ہے۔‏ پٹھے جلد تھک جاتے ہیں،‏ اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں اور غذا میں چربی مشکل سے ہضم ہوتی ہے۔‏ جب جسم کو آکسیجن کی مزید ضرورت ہوتی ہے تو انسان محسوس کرنے لگتا ہے کہ اُسے زیادہ سانس لینا چاہئے۔‏ لیکن اُونچائی پر پہنچنے والے ایسا محسوس نہیں کرتے۔‏ کیوں نہیں؟‏

ہم سانس لینے کی ضرورت کیوں محسوس کرتے ہیں،‏ سائنسدان اس بات کا مکمل طور پر کھوج نہیں لگا سکے۔‏ لیکن انہیں اتنا معلوم ہے کہ ہمیں یہ احساس آکسیجن کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ خون میں کاربن‌ڈائی‌آکسائیڈ کی مقدار زیادہ ہو جانے سے ہوتا ہے۔‏ یہ ایک ایسی گیس ہے جو پٹھوں کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے۔‏ اُونچائی پر ہمیں سانس چڑھ جاتا ہے لیکن اس سے جسم میں آکسیجن کی ضرورت مکمل طور پر پوری نہیں ہوتی۔‏

اُونچائی پر سردرد کیوں ہوتا ہے؟‏ اُونچائی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کے ایک ماہر کے مطابق ایسی بیماریاں اکثر اسلئے ہوتی ہیں کہ دماغ میں پانی جمع ہو جاتا ہے۔‏ نتیجتاً بعض لوگوں کے سر میں دباؤ ہونے لگتا ہے۔‏ دلچسپی کی بات ہے کہ بعض لوگوں کیساتھ ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اُنکی کھوپڑی دوسروں کے مقابلے میں بڑی ہوتی ہے۔‏ اگر اُونچے علاقے میں رہتے وقت پٹھوں پر آپکا اختیار ختم ہو جائے،‏ آپکی نظر دُھندلی ہو جائے،‏ آپ فریب‌نظر کا شکار ہونے لگیں یا آپ گھبراہٹ محسوس کرنے لگیں تو جلد از جلد ڈاکٹر کے پاس جائیں اور نشیبی علاقے کی طرف روانہ ہوں کیونکہ ایک ایسی بیماری آپکے لئے جان‌لیوا ہو سکتی ہے۔‏

آپکی حفاظت کیلئے کچھ مشورے

اُونچائی پر پہنچنے کے اثرات دوسرے اور تیسرے دن پر سب سے شدید ہوتے ہیں۔‏ اسلئے سفر کے کچھ دن پہلے اور بعد میں بہت زیادہ یا بھاری کھانا نہیں کھانا چاہئے،‏ خاص طور پر سونے سے پہلے اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔‏ چکنائی کھانے کی بجائے بہتر ہے کہ آپ چاول،‏ جئی اور آلو جیسے نشاستے کھائیں۔‏ اس کہاوت پر عمل کرنا فائدہ‌مند ثابت ہو سکتا ہے کہ ”‏صبح کو بادشاہ کی طرح ناشتہ کر اور شام کو بھکاری کی طرح کھا۔‏“‏ اسکے علاوہ اُونچے علاقے میں پہنچنے کے فوراً بعد ورزش یا سخت مزدوری نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے یہ تمام علامات زیادہ شدید ہو سکتی ہیں۔‏ بہتیرے جوان لوگ ان مشوروں کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے اکثر زیادہ بیمار ہو جاتے ہیں۔‏

اُونچائی پر ہوا اتنی ہلکی ہوتی ہے کہ وہ ہمیں سورج کی نقصاندہ کِرنوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتی۔‏ اسلئے ٹوپی پہنیں اور دھوپ سے محفوظ رکھنے والی کریم لگائیں۔‏ یہ کِرنیں آنکھوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں اسلئے کالے چشمے بھی پہنیں۔‏ ہلکی ہوا کی وجہ سے آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں اسلئے بہت پانی پئیں۔‏

ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ ایسے مریض جنکو دل یا پھیپھڑوں کی بیماری،‏ ہائی بلڈپریشر یا سکل‌سیل انیمیا ہے یا پھر بہت موٹے اشخاص پہاڑی علاقے میں جانے سے پہلے اپنا چیک‌اپ کروا لیں۔‏ * اگر آپکو زکام،‏ برانکائٹس یا نمونیا ہو تو بہتر ہے کہ آپ کسی اُونچے علاقے میں نہ جائیں کیونکہ وہاں آپکے پھیپھڑوں میں پانی جمع ہو سکتا ہے۔‏ اسی طرح بہت ورزش کرنے کے بعد بھی پھیپھڑوں میں پانی جمع ہو سکتا ہے اور یہ نہایت خطرناک ہے۔‏ ایسے لوگ جو اپنی پوری زندگی پہاڑوں پر رہ چکے ہیں جب انکو پھیپھڑوں کی کوئی بیماری لگ جاتی ہے تو وہ بھی آکسیجن کی کمی کی وجہ سے شدید خطرے میں ہوتے ہیں۔‏ دلچسپی کی بات ہے کہ دمے کے مریضوں کی حالت میں اُونچائی پر اکثر بہتری آ جاتی ہے۔‏ روس کے کچھ ڈاکٹر ایسے مریضوں کو علاج کے طور پر ایک ہسپتال میں داخل کرواتے ہیں جو اُونچائی پر ہے۔‏

اُونچائی کا عادی ہو جانا

کسی اُونچے علاقے میں رہنا عام طور پر صحت کیلئے نقصاندہ نہیں ہوتا۔‏ مثال کے طور پر کوہِ‌قاف جیسے پہاڑی علاقے اس بات کیلئے مشہور ہیں کہ وہاں کے اکثر باشندوں کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے۔‏ بعض لوگ بہت اُونچے علاقوں میں کافی عرصہ رہ چکے ہیں۔‏ جاگو!‏ کا ایک قاری یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں نے ۱۳ سال ۵۰۰،‏۱۹ فٹ کی بلندی پر گندھک کی ایک کان میں کام کرتے ہوئے گزارے۔‏ آتش‌فشاں کی چوٹی کے قریب ہی ایک بڑے ہتھوڑے کیساتھ گندھک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔‏ اسکے باوجود ہم شام کو فٹ‌بال کھیلا کرتے تھے!‏“‏ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی جسم کٹھن حالات کے مطابق ڈھل سکتا ہے اور یہ بات ہمارے خالق کی اعلیٰ حکمت کو نمایاں کرتی ہے۔‏ پس اُونچائی پر ہمارا جسم آکسیجن کی کمی سے کیسے نپٹتا ہے؟‏

جب ہم کسی بلند مقام پر پہنچتے ہیں تو دل اور پھیپھڑے زیادہ کام کرنے لگتے ہیں۔‏ پھر خون میں پلازمہ کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔‏ اس وجہ سے خون گاڑھا ہو کر زیادہ آکسیجن جذب کر لیتا ہے۔‏ دماغ کو آکسیجن کی خاص ضرورت ہوتی ہے اِسلئے بدن اِسے زیادہ خون پہنچاتا ہے۔‏ محض چند گھنٹوں کے بعد ہی ہڈی کے گودے میں مزید سُرخ خلیے پیدا ہو جاتے ہیں جو زیادہ مقدار میں آکسیجن جذب کر سکتے ہیں۔‏ اگرچہ اُونچائی کے اثرات کا مکمل طور پر عادی ہونے میں کچھ مہینے لگ سکتے ہیں لیکن چند دنوں ہی کے بعد دل کی دھڑکن اور سانس لینے کا عمل اپنے معمول پر آ جاتا ہے۔‏

گاڑی چلانے اور کھانا پکانے میں مسائل

آپکے جسم کے علاوہ آپکی گاڑی پر بھی آکسیجن کی کمی کا اثر ہوتا ہے۔‏ آپ دیکھینگے کہ اسکا انجن اُونچائی پر اتنا مضبوط نہیں جتنا اُسے عام طور پر ہونا چاہئے۔‏ آپ اسکے پٹرول کے آمیزہ اور موٹر کے اِگنیشن ٹائمنگ میں مکینک کی مدد سے کچھ تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔‏ لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود انجن کی طاقت کم ہوگی۔‏ اسکے علاوہ اُونچائی پر کھانا پکانے پر کیا اثر پڑتا ہے؟‏

کیک پھولتا نہیں،‏ ڈبل‌روٹی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے،‏ پھلیاں دیر سے گلتی ہیں اور اُبلا ہوا انڈا اندر سے کچا رہتا ہے—‏یہ بلند علاقوں میں کھانا پکانے کے کچھ مسائل ہیں۔‏ انکی کیا وجہ ہے اور انہیں کیسے حل کِیا جا سکتا ہے؟‏

اُونچے علاقوں میں ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے۔‏ اسلئے خاص طور پر کیک اور ڈبل‌روٹی کو پکانا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔‏ کیک اور ڈبل‌روٹی پکاتے وقت گیس پیدا ہوتی ہے جس سے وہ پھولتے ہیں۔‏ لیکن ہوا ہلکی ہونے کی وجہ سے یہ حد سے زیادہ پھولتے ہیں۔‏ پکتے وقت کیک اور ڈبل‌روٹی میں چھوٹے بلبلے پیدا ہوتے ہیں۔‏ لیکن اُونچائی پر یہ بلبلے بڑھ کر پھٹ جاتے ہیں۔‏ لہٰذا کیک پھولتا نہیں اور ڈبل‌روٹی کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔‏ لیکن مسئلے کا حل آسان ہے۔‏ کیک بناتے وقت انڈوں کو کم پھینٹیں۔‏ جن کھانوں میں میٹھا سوڈا استعمال ہوتا ہے ان میں اِسکی مقدار کم کر دیں۔‏ کھانے کی ترکیبوں کی ایک کتاب میں کہا گیا ہے کہ ۰۰۰،‏۲ فٹ کی اُونچائی پر ۲۵ فیصد کم اور ۰۰۰،‏۸ فٹ کی اُونچائی پر ۷۵ فیصد کم میٹھا سوڈا استعمال کریں۔‏

کسی قسم کی خمیری روٹی بنانے کے لئے آٹے کو پھولاتے وقت اُسے دُگنا سے زیادہ نہ ہونے دیں۔‏ انڈے آٹے کو مضبوط کرتے ہیں اسلئے بڑے سے بڑے انڈے استعمال کریں۔‏ آٹے میں چینی کی مقدار کو تھوڑا کم کر دیں۔‏ ہلکی ہوا سے آٹے میں نمی کم ہو جاتی ہے اِسلئے چینی تیز ہو جاتی ہے۔‏ اُونچائی کی ہلکی،‏ خشک ہوا کسی بھی کھانے کی نمی کو کم کرتی ہے اسلئے آپکو ہمیشہ زیادہ پانی استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی۔‏

آپ بلند علاقے میں جوکچھ بھی پکائینگے اس میں زیادہ دیر لگے گی۔‏ مثال کے طور پر،‏ ۰۰۰،‏۵ فٹ کی بلندی پر انڈے کو اُبالنے کیلئے معمول سے ایک منٹ زیادہ لگتا ہے جبکہ ۰۰۰،‏۱۰ فٹ پر مزید تین منٹ لگتے ہیں۔‏ اس وجہ سے اِن علاقوں میں پریشرککر استعمال کرنے کا بڑا فائدہ ہے،‏ خاص طور پر پھلیاں اور مٹر پکاتے وقت پریشرککر بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔‏

پہاڑی علاقوں میں سیر کرنے سے نہ ہچکچائیں۔‏ آپکے لئے سانس لینا شاید مشکل ہو۔‏ شاید سپنج کیک پھولنے کی بجائے بسکٹ بن جائے اور آپکی گاڑی ایک کچھوے کی طرح آہستہ آہستہ چلے۔‏ البتہ اگر آپکی صحت اچھی ہے تو پہاڑوں کی سیر کرنے سے آپکو ضرور مزہ آئیگا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 16 بعض ڈاکٹر ایسے مریضوں کو ایک خاص دوائی اَسیٹازولامائڈ دیتے ہیں تاکہ وہ اُونچائی پر آسانی سے سانس لے سکیں۔‏ ایسی اَور بھی ادویات دستیاب ہیں لیکن تمام ڈاکٹر انکو لینے کا مشورہ نہیں دیتے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲ اور ۲۳ پر ڈائیگرام/‏تصویریں]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

پوری دُنیا میں بعض اُونچے شہر اور پہاڑ

‏—‏۰۰۰،‏۳۰ فٹ—‏

ماؤنٹ ایورسٹ،‏ نیپال اور چین

۰۳۵،‏۲۹ فٹ

‏—‏۰۰۰،‏۲۵ فٹ—‏

‏—‏۰۰۰،‏۲۰ فٹ—‏

ماؤنٹ کلی‌منجارو،‏ تنزانیہ

۳۴۱،‏۱۹ فٹ

اوکان‌کلچا،‏ چلی

۵۳۹،‏۱۷ فٹ

ماؤنٹ بلاں،‏ فرانس

۷۷۱،‏۱۵ فٹ

‏—‏۰۰۰،‏۱۵ فٹ—‏

پوٹوسی،‏ بولیویا

۷۰۰،‏۱۳ فٹ

پونو،‏ پیرو

۵۴۹،‏۱۲ فٹ

ماؤنٹ فیوجی،‏ جاپان

۳۸۷،‏۱۲ فٹ

لاپاز،‏ بولیویا

۹۰۰،‏۱۱ فٹ

‏—‏۰۰۰،‏۱۰ فٹ—‏

ترنگ‌سا زنگ،‏ بھوٹان

۸۶۷،‏۷ فٹ

میکسیکو سٹی،‏ میکسیکو

۳۴۷،‏۷ فٹ

ماؤنٹ واشنگٹن،‏

نیو ہیم‌شائر،‏ ریاستہائے متحدہ

۲۸۸،‏۶ فٹ

نیروبی،‏ کینیا

۴۹۵،‏۵ فٹ

ڈینور،‏ کولوراڈو،‏ ریاستہائے متحدہ

۲۸۰،‏۵ فٹ

‏—‏۰۰۰،‏۵ فٹ—‏

‏—‏سطحِ‌سمندر—‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

لاپاز،‏ بولیویا ۹۰۰،‏۱۱ فٹ

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

جوہانس‌برگ،‏ جنوبی افریقہ ۷۴۰،‏۵ فٹ