طلاق—بچوں پر اِس کے اثرات
طلاق—بچوں پر اِس کے اثرات
ماہرین کا خیال ہے کہ وہ ازدواجی زندگی کے مسائل کا حل جانتے ہیں۔ اِسی لئے وہ مشکلات سے دوچار خاندانوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں: ’آپ صرف اپنی زندگی کے بارے میں سوچیں بچوں کی فکر نہ کریں۔ بچے تو حالات کے مطابق خود کو ڈھال ہی لیتے ہیں۔ اُن کے لئے والدین کی طلاق سے نپٹنا اِتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا ہر وقت لڑتے رہنے والے والدین کے ساتھ گزارہ کرنا!‘
تاہم، طلاق کی حمایت کرنے والے بعض ماہرین نے اب اپنا نظریہ بدل لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’طلاق ایک ایسی جنگ ہے جس سے نہ صرف شوہر اور بیوی بلکہ بچے بھی متاثر ہوتے ہیں۔‘
کیا طلاق مسائل کا حل ہے؟
طلاق کے موضوع پر اگر ایک مزاحیہ ڈرامہ بنایا جائے تو لوگ یقیناً اِسے پسند کریں گے۔ اِس کی کہانی کچھ یوں ہو سکتی ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے طلاق لے لیتے ہیں۔ ماں عدالت کی مدد سے بچے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اِس کے بعد وہ ایک دوسرے شخص سے شادی کر لیتی ہے جس کی بیوی مر چکی ہے مگر بچے ہیں۔ ہر ہفتے اِس کہانی میں دکھایا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھساتھ اُن کے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ مگر ہر دفعہ اُن کا مسئلہ ۳۰ منٹ پر مبنی اِس مزاحیہ ڈرامے میں حل ہو جاتا ہے۔
اُوپر بیانکردہ صورتحال ایک دلچسپ ٹیوی ڈرامہ تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقی زندگی میں طلاق کوئی ڈرامہ نہیں ہے۔ اِس کے برعکس، یہ ایک انتہائی تکلیفدہ صورتحال ہے۔ ایک مصنف اپنی کتاب میں طلاق کے بارے میں لکھتا ہے: ”طلاق ایک قانونی کارروائی ہے جس میں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جوں ہی اِن میں سے کوئی طلاق کا فیصلہ کرتا ہے تو حالات اُس کے قابو میں نہیں رہتے۔ یوں کہہ لیں کہ وہ نہ تو اب اپنے بچوں کے بارے میں اور نہ ہی گھر بار کے سلسلے میں اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عدالت کی مدد سے شوہر اور بیوی کسی نتیجے پر پہنچنے کے قابل ہو جائیں مگر اِس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ حقیقت میں ایسا ہوگا۔ کیونکہ ایک جج جو آپ دونوں کو نہیں جانتا وہ اِس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ آپ کبکب اپنے بچوں سے مل سکتے ہیں اور آپ کے حصے میں کیا کچھ آئے گا۔ افسوس تو اِس بات کا ہے کہ جج آپ دونوں کی طرح نہیں سوچ سکتا۔“
بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ طلاق کے بعد مشکلات ختم ہو جاتی ہیں لیکن یہ محض ایک غلطفہمی ہے۔ مسائل حل نہیں ہوتے البتہ اِن کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ اگرچہ آپ کا رہنسہن اور مالی حیثیت غرض سب کچھ بدل جاتا ہے مگر اِن میں بہتری کی اُمید کم ہی ہوتی ہے۔ نیز، یہ نہ بھولیں کہ آپ کے بچے بھی طلاق سے متاثر ہوتے ہیں۔
طلاق اور بچے
والدین کی طلاق کی وجہ سے ہر عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر بچے بڑے ہیں تو وہ والدین کی طلاق سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔ اِس سلسلے میں وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب بچے سمجھدار ہو جاتے ہیں تو وہ والدین کے بغیر خود اپنا کام کرنے کی عادت ڈال رہے ہوتے ہیں۔ تاہم، ماہرین اِس کے منفی اثرات کو بھی نظرانداز نہیں کرتے۔ وہ اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اِنہی وجوہات کی بِنا پر طلاق سب سے زیادہ بڑے بچوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں نیچے دئے گئے نکات پر غور کریں:
▪ جوںجوں بچے بڑے ہوتے ہیں وہ خود کو اُس وقت کی نسبت زیادہ غیرمحفوظ سمجھنے لگتے ہیں جب وہ چھوٹے تھے۔ لہٰذا، یہ نہ سوچیں کہ وہ اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ عمر کا ایک ایسا دَور ہوتا ہے جب اُنہیں ماں اور باپ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
▪ زندگی کے اِس دَور میں نوجوان زیادہ پُختہ لوگوں سے دوستی کرنا سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن والدین کی طلاق کی وجہ سے نوجوانوں کا محبت، وفاداری اور اعتماد جیسی قدروں سے بھروسا اُٹھ جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں ہو سکتا ہے کہ اُن کے لئے لوگوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا مشکل ہو جائے۔
▪ ہر عمر کے بچے اپنے درد کا اظہار کسی نہ کسی طریقے سے کرتے ہیں۔ مگر جوانی میں قدم رکھنے والے بچے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے اکثر جُرم، منشیات اور شراب جیسی خطرناک چیزوں کا سہارا لیتے ہیں۔
لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ جن بچوں کے والدین میں طلاق ہو جاتی ہے وہ جذباتی طور پر اتنا ٹوٹ جاتے ہیں کہ نہ تو کبھی زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر ماں اور باپ دونوں کے ساتھ اُن کا رشتہ جڑا رہتا ہے تو وہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ * مگر یہ کہنا بھی دانشمندی کی بات نہیں کہ طلاق ’بچوں کے لئے بہتر ہوگی یا یہ شوہر اور بیوی کے درمیان تناؤ کو ختم کر دے گی۔‘ بعض کو یہ تجربہ ہوا ہے کہ طلاق سے پہلے بھی اُن کا آپس میں گزارہ کرنا مشکل تھا اور طلاق کے بعد بھی اُن کا لڑائیجھگڑا ختم نہیں ہوتا۔ اب وہ دونوں مالی معاملات یا بچوں کی تحویل جیسے مسائل کی وجہ سے پریشان ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ پہلے کی نسبت زیادہ جھگڑتے ہیں۔ ایسی مثالوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ طلاق خاندانی مسائل کا حل نہیں ہے۔ اِس سے بس مشکلات ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
ازدواجی مسائل کا ایک حل
اُس صورت میں کیا ہو اگر آپ کی شادی مشکلات سے دوچار ہے اور آپ نے طلاق لینے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ اِس مضمون میں بہت سے ایسے نکات دئے گئے ہیں جن پر دوبارہ غور کرنا آپ کی خاندانی زندگی کو بچا سکتا ہے۔ کیونکہ طلاق ازدواجی مسائل کا واحد حل نہیں ہے۔
لیکن ہمارا یہ مطلب نہیں کہ اگر شادیشُدہ زندگی اچھی نہیں توبھی سب کچھ برداشت کریں۔ اِس کا ایک اَور حل بھی ہے: اگر آپ کی شادی مسائل سے دوچار ہے تو کیوں نہ اِن پر قابو پانے کی کوشش کریں؟ اِس مشورے کو یہ سوچ کر نظرانداز نہ کر دیں کہ آپ کے ازدواجی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ خود سے پوچھیں:
▪ ’جب مَیں نے شادی کی تھی تو مَیں اپنے ساتھی کی کن خوبیوں سے متاثر ہوا تھا؟ کیا اب بھی اُس میں یہ خوبیاں کسی حد تک موجود ہیں؟‘—امثال ۳۱:۱۰، ۲۹۔
▪ ’کیا مَیں اپنے دل میں اپنے ساتھی کے لئے ویسے ہی جذبات دوبارہ پیدا کر سکتا ہوں جو مَیں شادی سے پہلے اُس کے لئے رکھتا تھا؟‘—▪ ’اپنے ساتھی کے رویے کے باوجود مَیں اِس رسالے کے صفحہ ۳ سے ۹ میں درج تجاویز پر عمل کرنے کے لئے کیا کر سکتا ہوں؟‘—رومیوں ۱۲:۱۸۔
▪ ’کیا مَیں اپنے ساتھی کو (رُوبرو یا لکھ کر) بتا سکتا ہوں کہ ہمارے رشتے کو بہتر بنانے کے لئے مَیں کیا کرنا چاہتا ہوں؟‘—ایوب ۱۰:۱۔
▪ ’کیا ہم کسی تجربہکار دوست کے ساتھ بیٹھ کر باتچیت کر سکتے ہیں جو ہمیں ازدواجی مسائل کو حل کرنے میں مدد دے سکتا ہے؟‘—امثال ۲۷:۱۷۔
خدا کا کلام بیان کرتا ہے: ”نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے لیکن ہوشیار آدمی اپنی روش کو دیکھتا بھالتا ہے۔“ (امثال ۱۴:۱۵) اِس اصول کا اطلاق نہ صرف ساتھی کا انتخاب کرنے پر ہوتا ہے بلکہ اُس وقت بھی اِس پر غور کِیا جا سکتا ہے جب شادی کا بندھن کمزور پڑنے لگتا ہے۔ جیساکہ اِس رسالے کے صفحہ ۹ پر بیان کِیا گیا ہے کہ ایسے خاندان جو کامیاب زندگی گزار رہے ہیں اُن میں بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ وہ اِن پر قابو پا لیتے ہیں۔
فرض کریں کہ آپ اپنی گاڑی میں ایک لمبے سفر پر نکلے ہیں۔ بِلاشُبہ، سفر کے دوران آپ کو خراب موسم، ٹریفک جام اور اِسی طرح کے دیگر مسائل کا سامنا ہوگا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ راستہ بھول جائیں۔ ایسی صورت میں آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ واپس چلے جائیں گے یا اپنا سفر جاری رکھنے کے لئے راستہ تلاش کریں گے؟ اپنی شادی کے دن بھی آپ نے ایک ایسے ہی سفر کا آغاز کِیا تھا جس میں مشکلات آنی تھیں۔ خدا کا پاک کلام بیان کرتا ہے کہ ”شادی کر لینے والے اپنی زندگی میں کافی تکلیف اُٹھاتے ہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۷:۲۸، نیو اُردو بائبل ورشن) سوال یہ نہیں کہ آیا مسائل اُٹھیں گے یا نہیں بلکہ یہ کہ آپ اِن مسائل پر کیسے قابو پائیں گے۔ کیا آپ مشکلات پر قابو پانے اور زندگی کا سفر جاری رکھنے کے قابل ہوں گے؟ اگر آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کی شادی ناکام ہو چکی ہے توبھی کیا آپ مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے؟—یعقوب ۵:۱۴۔
شادی خدا کا بندوبست ہے
شادی خدا کا بندوبست ہے جسے معمولی خیال نہیں کِیا جانا چاہئے۔ (پیدایش ۲:۲۴) جب مسائل ناقابلِبرداشت ہو جائیں تو اُن نکات پر غور کریں جو اِس مضمون میں زیرِبحث آئے ہیں۔
۱. ایک دوسرے کے لئے پہلی سی محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔—غزلالغزلات ۸:۶۔
۲. آپس میں طے کریں کہ اپنے ازدواجی بندھن کو مضبوط بنانے کے لئے آپ کیا کریں گے اور پھر اِس پر عمل بھی کریں۔—یعقوب ۱:۲۲۔
۳. اپنے ساتھی کو واضح طور پر مگر احترام کے ساتھ رُوبرو یا لکھ کر یہ بتائیں کہ آپ کے خیال میں اپنے ازدواجی بندھن کو مضبوط بنانے کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے۔—ایوب ۷:۱۱۔
۴. تنہا ہی اپنی شادی کو ٹوٹنے سے بچا نے کی کوشش نہ کریں۔ آپ دو سروں سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 13 طلاق کے بعد ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جب بچوں کے لئے ماں اور باپ دونوں سے میلجول رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جب والدین میں سے کوئی ایک خاندان کے ساتھ تعلق ختم کر لیتا ہے، غیرذمہداری کا ثبوت دیتا ہے یاپھر نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔—۱-تیمتھیس ۵:۸۔
[صفحہ ۱۹ پر بکس/تصویر]
’اِس بار میری شادی ضرور کامیاب ہوگی‘
سروے ظاہر کرتے ہیں کہ اگر ایک شخص کی پہلی شادی ناکام ہو جاتی ہے اور وہ اپنے ساتھی کو طلاق دے کر دوسری شادی کر لیتا ہے تو اِس شادی کے ناکام ہونے کا اَور بھی زیادہ امکان ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ تیسری بار بھی ایسا کرتا ہے تو اِس شادی کے ناکام ہونے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ جس مصنف کا اِس مضمون کے شروع میں ذکر کِیا گیا ہے وہ اِس کی ایک وجہ یہ بتاتا ہے: ”اگر آپ کی پہلی شادی میں مشکلات پیش آتی ہیں تو اِس کی وجہ محض یہ نہیں کہ آپ نے صحیح ساتھی کا انتخاب نہیں کِیا ہے۔ آپ خود بھی اِس کے ذمہدار ہیں کیونکہ آپ نے اُس شخص کو اپنے لئے چنا تھا۔ اِس لئے نہ صرف آپ کا ساتھی بلکہ آپ بھی اپنی ازدواجی زندگی میں ہر کامیابی اور ناکامی کے ذمہدار ہیں۔“ آخر میں مصنف اِس نتیجے پر پہنچتا ہے: ”ساتھی بدلنے سے مسئلے حل نہیں ہوں گے اِس لئے بہتر ہوگا کہ ساتھی کو چھوڑنے کی بجائے اپنے مسائل کو حل کریں۔“
[صفحہ ۲۱ پر بکس]
اگر شادی ٹوٹ جاتی ہے
خدا کا کلام بیان کرتا ہے کہ بعض وجوہات کی بِنا پر طلاق لی یا دی جا سکتی ہے۔ * اگر آپ کے خاندان کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے تو آپ اپنے بچوں کو اِس سے نپٹنے میں کیسے مدد دے سکتے ہیں؟
اپنے بچوں کو صورتحال سے آگاہ کریں۔ اگر ممکن ہے تو ماں اور باپ دونوں کو بچوں سے بات کرنی چاہئے۔ اُنہیں بتائیں کہ آپ دونوں نے ایک دوسرے کو طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بچوں کو یقین دلائیں کہ یہ سب کچھ اُن کی وجہ سے نہیں ہو رہا۔ نیز، اُنہیں بتائیں کہ اُن کے لئے آپ کے پیار میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
آپس میں لڑناجھگڑنا بند کر دیں۔ بعض والدین طلاق کے بعد بھی آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ ایک ماہرِنفسیات کے مطابق ”قانونی طور پر تو وہ ایک دوسرے کو طلاق دے دیتے ہیں مگر جذباتی لحاظ سے ابھی تک اُنہوں نے ایک دوسرے کو معاف نہیں کِیا ہوتا۔“ طلاق کی وجہ سے بچوں سے اُن کے والدین چھن جاتے ہیں۔ چونکہ اُنہوں نے ہمیشہ اپنے ماں باپ کو لڑتےجھگڑتے دیکھا ہے اِس لئے اب بچے اپنی ہر جائز اور ناجائز بات منوانے کے لئے والدین کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک لڑکا شاید اپنی ماں سے کہے: ”ابو تو مجھے دیر تک گھر سے باہر رہنے کی اجازت دیتے ہیں تو پھر آپ مجھے کیوں منع کرتی ہیں؟“ یہ سوچ کر کہ کہیں بیٹا باپ کی طرف نہ ہو جائے ماں اُس کی بات مان لیتی ہے۔
بچوں کو اپنے دل کی بات کہنے دیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا بچہ کہے’اگر والدین کی ایک دوسرے کے لئے محبت ختم ہو گئی ہے تو وہ مجھے بھی پیار کرنا چھوڑ سکتے ہیں‘ یا ’اگر اُنہوں نے اصولوں کی پابندی نہیں کی تو مَیں کیوں کروں؟‘ اپنے بچوں کے دل میں چھپے خوف کو ختم کرنے اور اُن کی سوچ کو درست کرنے کے لئے اُنہیں اپنے احساسات کا اظہار کرنے دیں۔ مگر اُن سے اپنے بیاہتا ساتھی جیسی جذباتی حمایت کی توقع نہ کریں۔ یاد رکھیں کہ وہ آپ کے بچے ہیں۔
بچوں کی حوصلہافزائی کریں کہ وہ آپ کے سابقہ ساتھی کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آئیں۔ جس شخص کو آپ نے طلاق دی ہے اگرچہ اُس کے ساتھ آپ کا اب کوئی رشتہ نہیں رہا مگر آپ کے بچوں کے ساتھ اُس کا وہی رشتہ ہے۔ اِس لئے اُس شخص کے خلاف باتیں کرنا نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں ایک کتاب بیان کرتی ہے: ”طلاق لینے کے بعد اگر والدین بچوں کو اپنے سابقہ ساتھی کے خلاف استعمال کرتے ہیں تو اُنہیں اِس کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔“
اپنا بھی خیال رکھیں۔ کبھیکبھار ہو سکتا ہے کہ آپ بہت دُکھی ہو جائیں۔ مگر ہمت نہ ہاریں۔ خود کو مصروف رکھیں۔ اگر آپ یہوواہ کے ایک گواہ ہیں تو خدا کی خدمت میں مشغول رہیں۔ ایسا کرنا نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کے بچوں کو بھی متوازن زندگی گزارنے میں مدد دے گا۔—زبور ۱۸:۲؛ متی ۲۸:۱۹، ۲۰؛ عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 37 پاک کلام کے مطابق اگر کوئی شخص اپنے بیاہتا ساتھی کے علاوہ کسی اَور کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا ہے تو صرف اِسی صورت میں اُس کا ساتھی اُس سے طلاق لے سکتا اور کسی اَور کے ساتھ شادی کر سکتا ہے۔ (متی ۱۹:۹) اگر آپ کا ساتھی بےوفائی کرتا ہے تو آپ کے خاندان یا دوسرے لوگوں کی بجائے آپ کو خود اِس بات کا فیصلہ کرنا چاہئے کہ آپ طلاق لیں گے یا نہیں۔—گلتیوں ۶:۵۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
اپنی شادی کے دن آپ نے جو عہد کِیا تھا اُس پر قائم رہنے کی کوشش کریں
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
اگر بچے آپ کے پاس ہیں تو اُن کی حوصلہافزائی کریں کہ وہ آپ کے سابقہ ساتھی کے ساتھ اچھی طرح سے پیش آئیں