مشکلات سے دوچار مگر پھر بھی خوش—حصہ اوّل
مشکلات سے دوچار مگر پھر بھی خوش—حصہ اوّل
جیسا کہ جاگو! کے اِس خاص شمارے میں بتایا گیا ہے، ہر خاندان کو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ حیرانگی کی بات نہیں کیونکہ خدا کے کلام میں پیشینگوئی کی گئی ہے کہ آخری زمانے میں دُنیا پر ”بُرے دن آئیں گے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱) چونکہ ہم اِس دَور میں رہ رہے ہیں اِس لئے اُن لوگوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی خاندانی زندگی خوشگوار ہے۔
سوال یہ اُٹھتا ہے کہ مشکلات سے دوچار خاندان کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟ یسوع مسیح نے کہا: ”مبارک وہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔“ (لوقا ۱۱:۲۸) ایسے خاندان جو پاک صحیفوں میں پائے جانے والے اصولوں پر عمل کرتے ہیں وہ طرحطرح کے مسائل کا سامنا کرتے وقت بھی خوش رہتے ہیں۔ آئیں اِس سلسلے میں کچھ مثالوں پر غور کریں۔
معذور بچے کی دیکھبھال۔ خدا کے کلام میں اِس بات کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے کہ ضرورت پڑنے پر خاندان کے افراد ایک دوسرے کی مدد کریں۔ پاک صحیفوں میں لکھا ہے: ”اگر کوئی اپنوں اور خاص کر اپنے گھرانے کی خبرگیری نہ کرے تو ایمان کا منکر اور بےایمان سے بدتر ہے۔“—۱-تیمتھیس ۵:۸۔
صفحہ نمبر ۱۵ پر آپ جنوبی افریقہ میں رہنے والے وکٹر کے بارے میں پڑھیں گے جو اپنی بیوی کے ساتھ ۴۴ سال سے اپنے معذور بیٹے کی دیکھبھال کر رہے ہیں۔
گود لئے گئے بچوں کے احساسات۔ جب ایک بچے کے اصلی ماںباپ اُسے ترک کر دیتے ہیں تو اِس بات کا امکان ہوتا ہے کہ وہ احساسِکمتری کا شکار ہو جائے گا۔ لیکن زبور ۱۰:۱۴ میں یہوواہ خدا کو ”یتیم کا مددگار“ کہا گیا ہے۔ ایسی تسلیبخش آیتوں پر غور کرنے سے ایسے لوگوں میں خودداری کا احساس پیدا ہو سکتا ہے۔
صفحہ نمبر ۱۶ پر آپ امریکہ میں رہنے والی کینیاٹا کے بارے میں پڑھیں گے جو اپنے اصلی ماںباپ کو نہیں جانتی۔ وہ اِس محرومی سے کیسے نپٹ پائی؟
ماں یا باپ کی موت کا صدمہ۔ جب کسی کی ماں یا باپ فوت ہو جاتے ہیں تو اُسے لگتا ہے کہ وہ غم کے سمندر میں ڈوب جائے گا۔ ایسا شخص خدا کے کلام سے حوصلہ پا سکتا ہے کیونکہ یہوواہ خدا ”ہر طرح کی تسلی کا خدا ہے۔“—۲-کرنتھیوں ۱:۳۔
صفحہ نمبر ۱۷ پر آپ آسٹریلیا میں رہنے والی انجیلا کے بارے میں پڑھیں گے جس کے والد فوت ہو گئے۔ وہ اِس صدمے کو کیسے برداشت کر پائی؟
یہ سچ ہے کہ ہر خاندان کو وقتاًفوقتاً مشکل صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔ اِن مشکلات سے نپٹنے کا نسخہ کیا ہے؟ بہتیرے خاندان پاک صحیفوں کے اصولوں پر عمل کرنے سے مشکلترین صورتحال میں بھی خوش رہتے ہیں۔ اِس سلسلے میں اگلے صفحوں پر دی گئی آپبیتیوں پر غور کریں۔
[صفحہ ۱۵ پر بکس/تصویر]
معذور بچے کی دیکھبھال
جنوبی افریقہ کے رہنے والے وکٹر مینز کی زبانی
”جب سے اینڈرو پیدا ہوا ہے ہم ہی اُس کو نہلاتے اور کپڑے پہناتے ہیں، اور کبھیکبھار ہمیں اُس کو ہاتھ سے کھلانا بھی پڑتا ہے۔ اینڈرو کی عمر ۴۴ سال ہے۔“
حالانکہ اینڈرو ایک سال کا ہو گیا تھا لیکن اُس نے چلنا نہیں سیکھا تھا۔ تب ہمیں فکر لگ گئی۔ پھر اُس کو اچانک دورہ سا پڑا۔ ہم اُسے فوراً ہسپتال لے گئے۔ وہاں ہمیں پتہ چلا کہ اینڈرو مرگی کا مریض ہے۔ مزید ٹیسٹ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ وہ ذہنی طور پر معذور بھی ہے۔
طرحطرح کے علاج کروانے کے بعد آخرکار اینڈرو کو مرگی کے دوروں سے آرام مل گیا۔ کچھ عرصے تک تو اُسے روزانہ تین وقت چار مختلف دوائیاں لینی پڑیں۔ لیکن اُس کی ذہنی معذوری کے لئے کوئی دوا نہ تھی۔ حالانکہ اینڈرو ۴۴ سال کا مرد ہے لیکن ذہنی لحاظ سے وہ پانچچھ سال کے بچے کی طرح ہے۔
ڈاکٹروں نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم اینڈرو کو ایک ایسے ادارے میں داخل کر دیں جہاں ذہنی طور پر معذور بچوں کی دیکھبھال کی جاتی ہے۔ لیکن ہم نے فیصلہ کِیا کہ چاہے ہمیں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ ہو، ہم اینڈرو کی دیکھبھال گھر پر کریں گے۔
اینڈرو کے علاوہ ہماری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا بھی ہے۔ مَیں اُن کا بہت ہی شکرگزار ہوں کیونکہ اُنہوں نے اینڈرو کی دیکھبھال کرنے میں ہماری بڑی مدد کی۔ ہم یہوواہ کے گواہ ہیں اور ہماری کلیسیا کے بہنبھائی بھی ہمارا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ وقتاًفوقتاً وہ ہمارے لئے کھانا تیار کرتے ہیں اور جب ہمیں کوئی کام ہوتا ہے یا ہم تبلیغی کام میں حصہ لیتے ہیں تو وہ اینڈرو کا خیال رکھتے ہیں۔
ہم خدا کے کلام میں پائے جانے والے اِس وعدے کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب ”کوئی نہ کہے گا کہ مَیں بیمار ہوں۔“ (یسعیاہ ۳۳:۲۴) ہمیں پورا یقین ہے کہ مستقبل میں خدا اپنا یہ وعدہ پورا کرے گا اور ہمیشہہمیشہ کے لئے بیماری کا نامونشان مٹا دے گا۔ (۲-پطرس ۳:۱۳) ہم اُس دن کے منتظر ہیں جب اینڈرو بالکل صحتیاب ہو جائے گا۔ ہمیں یسوع مسیح کے اِس وعدے پر بھی پورا یقین ہے کہ جو شخص خدا کی مرضی بجا لانے کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتا ہے، خدا اُس کی ضروریات پوری کرے گا۔ (متی ۶:۳۳) ہم نے یہی دیکھا ہے کہ خدا نے ہماری ہر ضرورت کو پورا کِیا ہے۔ ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔
یہ سچ ہے کہ گھر میں معذور بچے کی دیکھبھال کرنا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن جو لوگ ایسا کر رہے ہیں مَیں اُنہیں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ باقاعدگی سے خدا سے مدد کی التجا کریں۔ (۱-پطرس ۵:۶، ۷) اپنے بچے کو بہت سا پیار دیں اور اُسے یہوواہ خدا کے بارے میں سکھائیں۔ یہ کبھی نہ سوچیں کہ وہ خدا سے لگن پیدا کرنے کی لیاقت نہیں رکھتا ہے۔ (افسیوں ۶:۴) تمام گھروالوں کو بچے کی دیکھبھال کرنے میں شامل کریں۔ یاد رکھیں کہ بچے کو اپنے ہی گھر میں سب سے زیادہ محبت ملتی ہے۔ ہم کبھی نہیں پچھتائے کہ ہم نے اینڈرو کی دیکھبھال خود کرنے کا فیصلہ کِیا۔ اینڈرو سب کا دل جیت لیتا ہے۔
[صفحہ ۱۶ پر بکس/تصویر]
گود لئے گئے بچوں کے احساسات
امریکہ کی رہنے والی کینیاٹا ینگ کی زبانی
”سوتیلے بچوں کا کمازکم ماں یا پھر باپ کے ساتھ خون کا رشتہ ہوتا ہے لیکن مجھے تو گود لیا گیا تھا۔ مَیں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ میری شکل کس پر ہے۔“
مَیں نہیں جانتی کہ میرا باپ کون ہے اور مَیں اپنی اصلی ماں سے کبھی نہیں ملی۔ میری ماں شراب اور منشیات کا نشہ کرتی تھی۔ جب مَیں پیدا ہوئی تو میری ماں نے مجھے ایک ایسے سرکاری ادارے کے سپرد کر دیا جو بچوں کی اُس وقت تک دیکھبھال کرتا ہے جب تک کہ اُن کو گود نہ لیا جائے۔ پھر جب مَیں تقریباً دو سال کی تھی، مجھے گود لے لیا گیا۔
میرے والد نے مجھے بتایا کہ جب ادارے کی اہلکار نے اُن کو میری تصویر دکھائی تو اُنہوں نے فوراً مجھے گود لینے کا فیصلہ کر لیا۔ جب مَیں نے اپنی ہونے والی ماں کو دیکھا تو وہ مجھے بڑی اچھی لگیں۔ مَیں نے فٹ سے کہا: ”آپ میری ماما ہو۔ مَیں آپ کے ساتھ گھر جاؤں گی۔“
بچپن میں مجھے یہ ڈر ستاتا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی تو مجھے سرکاری ادارے میں واپس بھیج دیا جائے گا۔ مجھے لگتا تھا کہ مَیں دوسرے بچوں سے فرق ہوں اور اِس لئے خفا ہونے یا بیمار ہونے کا حق نہیں رکھتی۔ مجھے تو یہ بھی ڈر تھا کہ اگر مجھے زُکام ہو گیا تو میرے والدین مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ لیکن امیابو مجھے باربار اِس بات کا احساس دلاتے کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور مجھے کبھی سرکاری ادارے میں واپس نہیں بھیجیں گے۔
اب بھی میرے دل میں کبھیکبھار یہ خیال آتا ہے کہ میری اتنی قدر نہیں جتنی کہ اُن بچوں کی ہوتی ہے جو اپنے اصلی ماںباپ سے پرورش پاتے ہیں۔ جونہی مَیں خود کو یقین دلاتی ہوں کہ ایسا نہیں ہے، کوئی نہ کوئی مجھ سے کہتا ہے: ”تمہارے والدین اتنے اچھے ہیں۔ تمہیں تو شکر کرنا چاہئے کہ وہ تمہیں گود لینے پر راضی تھے۔“ اور واقعی مَیں اپنے والدین کی نہایت شکرگزار ہوں۔ لیکن جب لوگ مجھ سے ایسی بات کہتے ہیں تو میرے دل پر چوٹ لگتی ہے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ مجھ میں کوئی نقص ہے اور مجھ سے پیار کرنا بہت مشکل ہے۔
مجھے اِس بات کو تسلیم کرنا بہت مشکل لگتا ہے کہ مَیں شاید کبھی نہ جان سکوں گی کہ میرا اصلی باپ کون ہے۔ مجھے بڑا دُکھ ہے کہ میری اصلی ماں کے نزدیک میری اتنی اہمیت نہیں تھی کہ وہ میری پرورش کرنے کی خاطر اپنی بُری عادتوں کو ترک کر دیتی۔ لیکن مجھے اُس پر ترس بھی آتا ہے۔ مَیں سوچتی ہوں کہ اگر مجھے اُس سے ملنے کا اتفاق ہوا تو مَیں اُسے بتاؤں گی کہ میری زندگی بڑی خوشگوار گزر رہی ہے اور اُسے اِس بات پر دُکھی نہیں ہونا چاہئے کہ اُس نے مجھے ادارے کے سپرد کر دیا تھا۔
میرے امیابو یہوواہ کے گواہ ہیں۔ اُن کا مجھ پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اُنہوں نے مجھے خدا کے کلام کی تعلیم دی ہے۔ مجھے زبورنویس کے اِن الفاظ سے بڑی تسلی ملتی ہے: ”جب میرا باپ اور میری ماں مجھے چھوڑ دیں تو [یہوواہ خدا] مجھے سنبھال لے گا۔“ (زبور ۲۷:۱۰) اور واقعی میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ چونکہ مَیں اپنے اصلی خاندان کے بارے میں کچھ نہیں جانتی اِس لئے مجھے دوسرے لوگوں کے پسمنظر اور اُن کی زندگی میں بڑی دلچسپی ہے۔ یہ بات اُس وقت میرے کام آتی ہے جب مَیں یہوواہ کی گواہ کے طور پر دوسروں کو خدا کے کلام کی سچائیوں کے بارے میں سکھاتی ہوں۔ اِس تعلیمی کام میں حصہ لینے سے میری زندگی بامقصد ہو گئی ہے اور مجھ میں خودداری کا احساس بڑھ گیا ہے۔ جب بھی مَیں افسردہ ہوتی ہوں تو مَیں اپنا دھیان دوسروں کی مدد کرنے پر لگاتی ہوں۔ جب مَیں لوگوں کو خدا کے کلام کی تعلیم دیتی ہوں تو اکثر میری اُن سے دوستی ہو جاتی ہے۔ ہر شخص کی زندگی خوشیوں اور غم کی داستان ہوتی ہے۔
[صفحہ ۱۷ پر بکس/تصویر]
ماں یا باپ کی موت کا صدمہ
”جب ابو فوت ہو گئے تو مجھے لگا کہ کسی نے میرا سہارا چھین لیا ہے۔ میرے پیارے ابو جان جو میرے ہر مسئلے کو حل کرتے تھے اور سب کچھ جانتے تھے مجھ سے بچھڑ گئے۔“
آسٹریلیا کی رہنے والی انجیلا رُٹگرز کی زبانی
میرے ابو جان تقریباً دس سال پہلے فوت ہو گئے جب مَیں نوجوان ہی تھی۔ اُن کی موت سے چھ ماہ پہلے اُن کا آپریشن ہوا تھا۔ آپریشن کے بعد وہ ابھی ہوش میں نہیں آئے تھے کہ ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ ابو کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اِس پر امی جان ڈاکٹر سے سوال پر سوال کرنے لگیں، میرے بھائی جان بےہوش ہو گئے اور مَیں پریشانی اور غم کے سمندر میں ڈوبنے لگی۔ اِس کے چھ ماہ بعد ابو جان چل بسے۔
ابو کی موت کے بعد مَیں ایک عرصے تک پریشانی اور اُلجھن کا شکار رہی۔ مَیں چاہتی تھی کہ میرے دوست میرے احساسات کو سمجھیں۔ لیکن مَیں یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ مجھ پر ترس کھا کر میرے ساتھ اپنا رویہ بدل لیں۔ اِس وجہ سے مَیں نے اپنے اصلی احساسات اُن سے چھپا کر رکھنے کی کوشش کی۔ اِس کے ساتھساتھ مَیں اُن کے ساتھ ہنسیمذاق بھی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ مَیں اُنہیں یہ تاثر نہیں دینا چاہتی تھی کہ مَیں اپنا غم بھول گئی ہوں۔ ناجانے میرے دوستوں نے میرے رویے سے کتنی تکلیف اُٹھائی ہوگی۔
جب مَیں ابو کے بارے میں سوچتی ہوں تو میرے دل میں اکثر یہ خیال آتا ہے کہ ”کاش مَیں نے زیادہ موقعوں پر اُن کے گلے لگ کر کہا ہوتا کہ مجھے آپ سے بہت پیار ہے۔ کاش مَیں نے اُن کے ساتھ زیادہ وقت گزارا ہوتا۔“ مَیں خود کو لاکھ سمجھاتی ہوں کہ ”ابو کبھی یہ نہ چاہتے کہ مَیں دل میں ایسے خیال لاؤں“ لیکن پھر بھی میرا دل نہیں سمجھتا۔
مجھے یہوواہ خدا کے اِس وعدے سے بڑی تسلی ملتی ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرے گا۔ (یوحنا ۵:۲۸، ۲۹) ابو کی موت میرے لئے ایسی ہے گویا کہ وہ ایک لمبے سفر پر گئے ہیں اور ایک دن گھر واپس لوٹ آئیں گے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ کب ہوگا لیکن مَیں جانتی ہوں کہ وہ ضرور واپس آئیں گے۔ جب ابو فوت ہوئے تو لوگ مجھے تسلی دینے کے لئے کہتے تھے کہ ”وہ وقت آئے گا جب خدا تمہارے ابو کو زندہ کرے گا۔“ لیکن شروعشروع میں مجھے اِس خیال سے تسلی نہیں ملتی تھی۔ مَیں تو چاہتی تھی کہ ابو ابھی میرے پاس ہوں۔ لیکن پھر جب مَیں ابو کی موت کو ایک لمبے سفر کے طور پر تصور کرنے لگی تو میرے لئے اُن کی کمی برداشت کرنا زیادہ آسان ہو گیا۔ اب مَیں بےچینی سے اُن کی واپسی کا انتظار کر رہی ہوں۔
ابو جان کی موت کے بعد میرے مسیحی بہنبھائی میرا سہارا بنے۔ ایک بھائی نے مجھ سے کہا کہ ”مجھے آپ کے ابو کی موت کے بارے میں بات کرنا مشکل لگتا ہے لیکن مَیں آپ کو اور آپ کے خاندان کو ہر وقت اپنی دُعاؤں میں یاد کرتا ہوں۔“ اُن کی اِس بات سے مجھے احساس ہو گیا کہ اگر لوگ زبان سے کچھ نہ بھی کہیں توبھی اُنہیں ہماری فکر ہے۔ مجھے اِس خیال سے بہت ہی تسلی ملی۔
ابو جان کی موت کے چار مہینے بعد امی جان لوگوں کو پاک صحیفوں کی تعلیم دینے میں زیادہ وقت صرف کرنے لگیں۔ جب مَیں نے دیکھا کہ اُنہیں اِس کام سے بڑی خوشی ملتی ہے تو مَیں بھی اُن کا ساتھ دینے لگی۔ یہ واقعی سچ ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے سے اپنا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ اِس کام میں حصہ لینے سے یہوواہ خدا کے وعدوں پر میرا اعتماد بڑھ گیا ہے اور میرا دھیان میرے اپنے دُکھ سے ہٹ گیا ہے۔