کیا مَیں الیکٹرانک میڈیا کو حد سے زیادہ استعمال کرتا ہوں؟
نوجوانوں کا سوال
کیا مَیں الیکٹرانک میڈیا کو حد سے زیادہ استعمال کرتا ہوں؟
اِن تینوں نوجوانوں میں کونسی بات ایک جیسی ہے؟
”مجھے ایسایمایس کرنا جنون کی حد تک پسند ہے۔ ایسایمایس میری زندگی ہے۔“—ایلن۔ *
”میری امی نے میرے کمرے کے لئے ایک ٹیوی خریدا۔ مَیں بہت خوش تھی۔ مَیں رات دیر تک ٹیوی دیکھتی جس کی وجہ سے میری نیند پوری نہیں ہوتی تھی۔ مَیں اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کی بجائے ہر وقت ٹیوی سے چپکی رہتی۔“—ٹریزہ۔
”ایک وقت تھا جب مَیں لگاتار یہی سوچتی رہتی تھی کہ شاید کسی نے میرے بلاگ پر کچھ لکھا ہوگا۔ اگر آدھی رات کو میری آنکھ کُھل جاتی تو بھی مَیں آنلائن ہو جاتی۔ جب بھی مجھے موقع ملتا، مَیں اپنے بلاگ پر کچھ نہ کچھ لکھتی۔“—اینا۔
آپ کے خیال میں اِن نوجوانوں میں سے کونکون الیکٹرانک میڈیا کا عادی بن گیا؟
□ ایلن □ ٹریزہ □ اینا
جب آپ کے والدین نوجوان تھے تو اُن کے زمانے میں الیکٹرانک میڈیا کی دو اقسام عام تھیں یعنی ٹیوی اور ریڈیو۔ اُن کے زمانے میں فون کو صرف بات کرنے کے لئے ہی استعمال کِیا جاتا تھا کیونکہ اِس میں کوئی اَور سسٹم نہیں تھے۔ اکثر یہ فون دیوار پر لگائے جاتے تھے۔ شاید آپ کو لگے کہ آپ کے والدین بہت ہی پُرانے زمانے میں رہتے تھے۔ ایک لڑکی جس کا نام اینا ہے، اُس نے کہا: ”میرے والدین کے زمانے میں ٹیکنالوجی اِتنی عام نہیں تھی۔ اِس وجہ سے اُنہیں ابھی تک اپنے موبائل فون کے سسٹم کو سمجھنا مشکل لگتا ہے۔“
آجکل موبائل فون صرف بات کرنے کے لئے ہی استعمال نہیں ہوتے بلکہ اِن کے ذریعے آپ گانے سُن سکتے ہیں؛ مختلف پروگرام دیکھ سکتے ہیں؛ گیم کھیل سکتے ہیں؛ اپنے دوستوں کو ایمیل بھیج سکتے ہیں؛ تصویریں کھینچ سکتے ہیں اور انٹرنیٹ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ شاید آپ کچھ سالوں سے موبائل فون، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہوں اِس لئے یہ آپ کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ لیکن آپ کے والدین کو شاید یہ لگے کہ اِن چیزوں نے نشے کی طرح آپ کو اپنا عادی بنا لیا ہے۔ لہٰذا اگر آپ کے والدین اِس سلسلے میں آپ کو کوئی مشورہ دیں تو یہ نہ سوچیں کہ ”وہ تو پُرانے زمانے کے ہیں، اُنہیں کیا پتہ؟“ غور کریں کہ بادشاہ سلیمان نے کہا کہ ”جو [شخص] بات سننے سے پہلے اُس کا جواب دے یہ اُس کی حماقت اور خجالت ہے۔“—امثال ۱۸:۱۳۔
اگر آپ کے والدین کو یہ لگتا ہے کہ آپ الیکٹرانک میڈیا کے عادی بن گئے ہیں تو یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں۔ اِس مضمون میں کچھ سوال دئے گئے ہیں جن سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کہیں آپ الیکٹرانک میڈیا کے عادی تو نہیں بن گئے ہیں۔
”کیا مَیں عادی بن گیا ہوں؟“
ایک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق کسی چیز یا کام کی عادت میں پڑنے کا مطلب ہے کہ ”باقاعدگی سے کسی کام میں حد سے زیادہ وقت صرف کرنا۔ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کام کو چھوڑ نہ پانا حالانکہ اِس کام کو کرنے سے نقصان ہو سکتا ہے۔“ اِس بیان کے
پیشِنظر اِس مضمون کے شروع میں جن نوجوانوں کے تبصرے دئے گئے ہیں، وہ الیکٹرانک میڈیا کے عادی بن گئے ہیں۔ کیا آپ بھی اِن چیزوں کے عادی بن گئے ہیں؟ آئیں، اِس انسائیکلوپیڈیا کے بیان پر تفصیل سے غور کرتے ہیں۔ اِس کے ساتھساتھ ہم کچھ نوجوانوں کے بیانات پر بھی غور کریں گے۔ ذرا سوچیں کہ کیا آپ نے بھی کبھی ایسے ہی الفاظ کہے ہیں یا اُن لوگوں جیسے کام کئے ہیں۔ اِس کے بعد آگے دئے گئے سوالوں کے جواب دیں۔کسی کام میں حد سے زیادہ وقت صرف کرنا۔ ”مَیں ہر روز کئی گھنٹے ویڈیو گیم کھیلنے میں صرف کرتا تھا جس سے میری نیند پر بہت بُرا اثر پڑا۔ مَیں ہر وقت دوسروں کے ساتھ ویڈیو گیمز کے بارے میں بات کرتا تھا۔ جو کھیل مَیں کھیلتا تھا، وہ میرے سر پر اِتنے سوار ہو گئے کہ مَیں ایک خیالی دُنیا میں رہنے لگا۔ مَیں اپنے گھر والوں سے کٹ کر رہ گیا تھا۔“—اینڈریو۔
آپ کے خیال میں ہر دن کتنے گھنٹے الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرنے میں صرف کرنا مناسب ہے؟ ․․․․․
آپ کے والدین کے خیال میں آپ کو کتنے گھنٹے الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرنے میں صرف کرنے چاہئیں؟ ․․․․․
آپ ایک دن میں کُل کتنے گھنٹے موبائل فون پر ایسایمایس کرنے، ٹیوی دیکھنے، ویڈیو گیم کھیلنے، ویبسائٹس پر تصویریں ڈالنے اور میسج کرنے میں صرف کرتے ہیں؟ ․․․․․
آپ نے اِن سوالوں کے جو جواب دئے ہیں، کیا اُن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ الیکٹرانک میڈیا کو حد سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں؟
□ جیہاں۔ □ جینہیں۔
چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی کسی کام کو چھوڑ نہ پانا۔ ”میرے والدین کہتے ہیں کہ مَیں حد سے زیادہ ایسایمایس کرتا ہوں۔ لیکن دوسرے نوجوانوں کے مقابلے میں تو مَیں بہت کم ایسایمایس بھیجتا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ مَیں اپنے والدین کی نسبت زیادہ ایسایمایس کرتا ہوں مگر اُن کا اور میرا کیا مقابلہ؟ وہ ۴۰ سال کے ہیں اور مَیں ۱۵ سال کا ہوں۔“—ایلن۔
کیا آپ کے والدین یا دوستوں نے کبھی آپ سے کہا کہ آپ موبائل، کمپیوٹر وغیرہ کو حد سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں؟
□ جیہاں۔ □ جینہیں۔
اگر اُنہوں نے آپ سے ایسا کہا ہے تو کیا آپ نے یہ سوچا کہ ”مَیں تو اِسے کسی بھی طرح کم استعمال کر ہی نہیں سکتا“؟
□ جیہاں۔ □ جینہیں۔
نقصاندہ اثرات۔ ”میرے دوست ہر وقت ایک دوسرے کو موبائل پر ایسایمایس کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گاڑی چلاتے ہوئے بھی ایسا کرتے ہیں۔ یہ کتنی خطرناک بات ہے۔“—جولی۔
”جب مَیں نے پہلی مرتبہ موبائل فون لیا تھا تو مَیں ہر وقت کسی نہ کسی کو فون کِیا کرتی تھی یا ایسایمایس کِیا کرتی تھی۔ اِس کا اثر یہ ہوا کہ اپنے گھر والوں اور کچھ دوستوں کے ساتھ میرے تعلقات بگڑ گئے۔ اب مَیں دیکھتی ہوں کہ جب مَیں اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتی ہوں تو وہ باربار میری بات کاٹ کر کہتے ہیں کہ ”ایک منٹ، یار۔ ذرا مجھے اِس میسج کا جواب دینے دو۔“ اِس وجہ سے مَیں اِن دوستوں کے زیادہ قریب نہیں ہوں۔“—شرلی۔
کیا آپ نے کبھی کلاس میں یا گاڑی چلاتے وقت موبائل فون پر کوئی میسج پڑھا یا کسی کو کوئی میسج بھیجا؟
□ جیہاں۔ □ جینہیں۔
جب آپ اپنے گھر والوں یا اپنے دوستوں سے بات کرتے ہیں تو کیا آپ باربار اُن کی بات کاٹ کر کسی سے فون پر بات کرتے ہیں یا کسی کو میسج بھیجتے ہیں؟
□ جیہاں۔ □ جینہیں۔
کیا آپ الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرنے میں اِتنا وقت صرف کرتے ہیں کہ آپ کی نیند پوری نہیں ہوتی اور آپ دھیان سے اپنی پڑھائی بھی نہیں کر پاتے؟
□ جیہاں۔ □ جینہیں۔
حد میں رہ کر الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کریں
اگر آپ کمپیوٹر، موبائل فون یا ایسی کوئی اَور چیز استعمال کرتے ہیں تو خود سے نیچے دئے گئے چار سوال پوچھیں۔ اِن سوالوں کے ساتھ خدا کے کلام کے کچھ اصول دئے گئے ہیں۔ اور پھر کچھ مشورے دئے گئے ہیں۔ اِن اصولوں اور مشوروں پر عمل کرنے سے آپ حد میں رہ کر اِن چیزوں کا استعمال کر پائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ اِن کے بُرے اثرات سے بھی بچے رہیں گے۔
۱. کیا مَیں اِس چیز کو کسی غلط کام کے لئے استعمال کر رہا ہوں؟ ”جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دلکش ہیں . . . اُن پر غور کِیا کرو۔“—فلپیوں ۴:۸۔
یہ کریں: جب آپ اپنے گھر والوں اور دوستوں سے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے رابطہ کرتے ہیں تو ایسی باتیں کریں جن سے آپ کی اور دوسروں کی حوصلہافزائی ہو۔—امثال ۲۵:۲۵؛ افسیوں ۴:۲۹۔
یہ نہ کریں: دوسروں کے بارے میں افواہیں نہ پھیلائیں۔ گندی تصویریں اور ایسایمایس نہ بھیجیں۔ گندی ویڈیوز اور پروگرام نہ دیکھیں۔—کلسیوں ۳:۵؛ ۱-پطرس ۴:۱۵۔
۲. مَیں اِس چیز کو کب استعمال کرتا ہوں؟ ”ہر چیز کا ایک موقع اور ہر کام کا جو آسمان کے نیچے ہوتا ہے ایک وقت ہے۔“—واعظ ۳:۱۔
یہ کریں: پہلے سے طے کریں کہ آپ فون پر بات کرنے، ایسایمایس کرنے، ٹیوی دیکھنے اور گیمز کھیلنے میں کتنا وقت صرف کریں گے۔ مذہبی اجلاسوں کے دوران یا دوسرے خاص موقعوں پر اپنا فون بند کر دیں۔ آپ ایسایمایس کا بعد میں بھی جواب دے سکتے ہیں۔
افسیوں ۵:۱۵-۱۷؛ فلپیوں ۲:۴۔
یہ نہ کریں: جو وقت آپ نے پڑھائی کرنے، اپنے گھر والوں یا دوستوں کے ساتھ بیٹھنے یا مذہبی کاموں میں حصہ لینے کے لئے مقرر کِیا ہے، اِس کے دوران موبائل فون، ٹیوی یا کمپیوٹر وغیرہ استعمال نہ کریں۔—۳. اِس چیز کے ذریعے مَیں کس طرح کے لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھتا ہوں؟ ”فریب نہ کھاؤ۔ بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔“—۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳۔
یہ کریں: الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ایسے لوگوں کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کریں جو اچھی عادتیں اپنانے میں آپ کی مدد کرتے ہیں۔—امثال ۲۲:۱۷۔
یہ نہ کریں: خود کو اِس دھوکے میں نہ رکھیں کہ آپ اُن لوگوں کے بولنے کا انداز، سوچ اور طورطریقے نہیں اپنائیں گے جن کے ساتھ آپ رابطہ رکھتے ہیں یا جنہیں آپ ٹیوی پر یا فلموں میں دیکھتے ہیں۔—امثال ۱۳:۲۰۔
۴. مَیں اِس چیز کو استعمال کرنے میں کتنا وقت صرف کرتا ہوں؟ ’تُم بہتر چیزوں کا امتیاز کرو۔‘—فلپیوں ۱:۱۰، کیتھولک ترجمہ۔
یہ کریں: اِس بات کا حساب رکھیں کہ آپ الیکٹرانک میڈیا کے استعمال میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔
یہ نہ کریں: اگر آپ کے والدین یا دوست یہ کہیں کہ آپ ٹیوی، موبائل یا کمپیوٹر وغیرہ پر بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں تو اُن کی بات کو نظرانداز نہ کریں۔—امثال ۲۶:۱۲۔
الیکٹرانک میڈیا کو حد میں رہ کر استعمال کرنے کے بارے میں اینڈریو نے کہا: ”الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرنے میں مزہ تو آتا ہے لیکن صرف تھوڑی دیر کے لئے۔ اب مَیں جان گیا ہوں کہ ٹیکنالوجی کو میرے اور میرے گھر والوں کے بیچ میں دیوار نہیں بننا چاہئے۔“
”نوجوانوں کا سوال“ کے سلسلے میں مزید مضامین ویبسائٹ www.watchtower.org/ype پر مل سکتے ہیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 4 اِس مضمون میں کچھ نام بدل دئے گئے ہیں۔
[صفحہ ۱۷ پر بکس/تصویریں]
آپ کے ہمعمروں کی رائے
”میرے امیابو اکثر مجھ سے کہتے تھے: ”تُم ہر وقت موبائل کے ساتھ لگے رہتے ہو، تمہارے ہاتھوں کو گوند لگا کر موبائل سے چپکا دینا چاہئے۔“ پہلےپہلے تو مجھے اُن کی بات مذاق لگتی تھی لیکن پھر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ مذاق نہیں کر رہے۔ اب مَیں نے ایسایمایس کرنا کم کر دیا ہے اور مَیں پہلے کی نسبت زیادہ خوش رہتا ہوں۔“
”مَیں ہر وقت یہ سوچتی رہتی کہ شاید کسی نے میرے ویبپیج پر کچھ لکھا ہوگا۔ اِس لئے جب بھی ممکن ہوتا، مَیں انٹرنیٹ کھول لیتی۔ اِس وجہ سے مَیں اپنا ہومورک نہیں کر پاتی تھی اور پڑھائی پر بھی توجہ نہیں دے رہی تھی۔ لیکن اب مَیں انٹرنیٹ اِتنا زیادہ استعمال نہیں کرتی۔ مجھے لگتا ہے جیسے میرے کندھوں سے کوئی بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا ہے۔ مَیں نے سیکھ لیا ہے کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔“
[تصویریں]
جووارنی
ماریہ
[صفحہ ۱۸ پر بکس]
”مَیں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی عادی تھی“
”کچھ سال پہلے مَیں اور میرے گھر والے کسی اَور علاقے میں منتقل ہوئے۔ مَیں اپنے دوستوں کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتی تھی۔ اُنہوں نے مجھے ایک ایسی ویبسائٹ کا ممبر بننے کی دعوت دی جس پر ہم ایک دوسرے کی تصویریں دیکھتے اور اِن پر تبصرے کرتے۔ مجھے لگا کہ یہ ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے کا اچھا طریقہ ہے۔ مَیں تو سوچ رہی تھی کہ ”مَیں صرف اُن لوگوں کے ساتھ بات کروں گی جن کو مَیں جانتی ہوں۔ اِس میں تو کوئی ہرج نہیں۔“
شروع شروع میں تو سب ٹھیک رہا۔ مَیں ہفتے میں ایک دفعہ اِس سائٹ کو کھولتی، اپنے دوستوں کی تصویریں دیکھتی اور اِن پر تبصرے لکھتی اور پھر اپنی تصویروں کے بارے میں اُن کے تبصرے پڑھتی۔ لیکن تھوڑے عرصے بعد مَیں اِس ویبسائٹ کی اِتنی عادی ہو گئی کہ مَیں لگاتار اِس پر آنلائن رہتی تھی۔ جب میرے دوستوں کے دوستوں نے یہ دیکھا تو اُنہوں نے مجھے دعوت دی کہ مَیں اُن کی بھی دوست بن جاؤں۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ کیا ہوتا ہے۔ آپ کا ایک دوست کہتا ہے کہ فلاں شخص بہت اچھا ہے، اِس لئے آپ اُس شخص کی دعوت قبول کر لیتے ہیں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے ۵۰ دوست بن جاتے ہیں۔
پھر یہ ہوا کہ مَیں ہر وقت آنلائن ہونے کے بارے میں ہی سوچنے لگی۔ یہاں تک کہ اِس ویبسائٹ کو کھولتے ہی مَیں یہ سوچنے لگتی کہ ”مَیں اگلی دفعہ اِسے کب کھولوں گی؟ مجھے نئی تصویریں ڈالنی ہیں۔“ اکثر ایسا ہوتا کہ مَیں دو چار دوستوں کے تبصرے پڑھتی، ایک دو ویڈیو ڈالتی اور پھر جب ٹائم دیکھتی تو کئی گھنٹے گزر چکے ہوتے۔
ایک دو سال تک ایسے ہی چلتا رہا۔ آخرکار مجھے احساس ہوا کہ مَیں اِس ویبسائٹ کی عادی بن گئی ہوں۔ اب مَیں نے انٹرنیٹ کو حد سے زیادہ استعمال کرنے کی عادت پر قابو پا لیا ہے۔ مَیں اُنہی لوگوں کو اپنا دوست بناتی ہوں جن سے مَیں آمنےسامنے بات کر سکتی ہوں اور جو میرے جیسے معیار رکھتے ہیں۔ میرے کچھ پُرانے دوست نہیں سمجھتے کہ مَیں یہ سب کیوں کر رہی ہوں۔ مگر اب مَیں نے سبق سیکھ لیا ہے۔“—۱۸ سالہ ہیلن۔
[صفحہ صفحہ ۱۸ پر بکس]
اپنے والدین سے مشورہ لیں
جب کبھی آپ اپنے والدین سے گانوں یا فلموں کے بارے میں بات کریں گے تو شاید آپ حیران ہوں گے کہ اُنہیں آپ کی پسند پر کوئی اعتراض نہیں۔ ایک لڑکی جس کا نام شیرل ہے، اُس نے کہا: ”ایک بار میرے ابو نے میرے کمرے میں گانوں کی ایک سیڈی دیکھی۔ اُن کو لگا کہ یہ گانے سننا میرے لئے مناسب نہیں ہے۔ مَیں نے اُن سے کہا کہ ”ابو، آپ میرے ساتھ بیٹھیں اور ہم دونوں مل کر یہ سیڈی سنتے ہیں۔“ ہم نے پوری سیڈی سنی۔ اِس کے بعد ابو نے کہا کہ یہ گانے سننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔“
نیچے ایک ایسا سوال لکھیں جو آپ الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے اپنے والدین سے پوچھنا چاہتے ہیں۔
[صفحہ ۱۹ پر بکس]
والدین کے لئے
کیا آپ کا بچہ انٹرنیٹ پر بہت زیادہ وقت صرف کرتا ہے یا ہر وقت ایسایمایس کرتا رہتا ہے؟ یا پھر کیا وہ آپ کے ساتھ بات کرنے کی بجائے ایمپیتھری کے ساتھ چپکا رہتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟
کچھ والدین شاید اپنے بچوں سے یہ چیزیں لے لیں۔ شاید وہ سوچیں کہ الیکٹرانک میڈیا کا استعمال ہمیشہ نقصاندہ ہوتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ذرا یاد کریں کہ جب آپ نوجوان تھے تو آپ نے بھی ایسی چیزوں کو استعمال کِیا تھا جو آپ کے والدین کے زمانے میں نہیں تھیں۔ بعض صورتحال میں ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے بچے سے موبائل، ایمپیتھری وغیرہ لینا پڑے۔ لیکن زیادہتر صورتحال میں آپ اُسے یہ سکھا سکتے ہیں کہ وہ موبائل، کمپیوٹر اور ٹیوی وغیرہ کو حد میں رہ کر استعمال کرے۔ آپ اپنے بچے کو یہ کیسے سکھا سکتے ہیں؟
اپنے بچے کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور اُس سے بات کریں۔ پہلے تو اُسے بتائیں کہ آپ اِس بات پر پریشان ہیں کہ وہ الیکٹرانک میڈیا کو حد سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔ پھر اُس کی بات کو سنیں۔ (امثال ۱۸:۱۳) اِس کے بعد مل کر بات کریں کہ اِس مسئلے کو کیسے حل کِیا جا سکتا ہے۔ اپنے بچے کے لئے اصول بنائیں کہ وہ کتنی دیر تک الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن حد سے زیادہ سخت اصول نہ بنائیں۔ (فلپیوں ۴:۵) ہیلن جس کا پہلے بھی ذکر کِیا گیا ہے، اُس نے کہا: ”مَیں ہر وقت ایسایمایس کرتی رہتی تھی۔ لیکن میرے امیابو نے مجھ سے فون لے لینے کی بجائے میرے لئے کچھ اصول بنائے۔ اِس طرح اُنہوں نے میری مدد کی کہ مَیں ایسایمایس کرنے کی اپنی عادت پر قابو پاؤں۔ اب مَیں اُس وقت بھی زیادہ ایسایمایس نہیں کرتی جب میرے والدین میرے ساتھ نہیں ہوتے۔“
اگر آپ کا بچہ آپ کے سمجھانے پر اپنی صفائی پیش کرنے لگتا ہے تو یہ نہ سمجھیں کہ آپ کی بات کا اُس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اپنے بچے کو کچھ وقت دیں کہ وہ آپ کے مشورے پر غور کرے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کی بات سے متفق ہو اور اُس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ بہت سے نوجوانوں کے احساسات شاید ہیلی جیسے ہوں جس نے کہا: ”جب میرے والدین نے مجھ سے کہا کہ ”تمہیں کمپیوٹر کی لت پڑ گئی ہے“ تو مجھے بہت دُکھ ہوا۔ لیکن بعد میں جب مَیں نے اُن کی بات پر غور کِیا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔“
[صفحہ ۱۹ پر تصویر]
کیا الیکٹرانک میڈیا نے آپ کو اپنے قابو میں رکھا ہے یا پھر آپ نے اِسے اپنے قابو میں رکھا ہے؟