سوانیتی—بُرجوں کا دیس
سوانیتی—بُرجوں کا دیس
ہم ایک ۸۰۰ سال پُرانے بُرج پر کھڑے تھے۔ جب ہم نے اِس ۲۵ میٹر (۸۰ فٹ) اُونچے بُرج سے نیچے جھانکا تو ہمارا دل دہل گیا۔ ہم نے فوراً اِس کی مضبوط دیواروں کا سہارا لیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے مستیا نامی گاؤں پھیلا ہوا تھا۔ اِس گاؤں میں جگہجگہ بُرج نظر آ رہے تھے جو صدیوں پُرانے تھے۔ اِس خوبصورت منظر کو دیکھ کر ہم بہت خوش ہوئے کہ ہم نے ملک جارجیا کے صوبے سوانیتی کی سیر کرنے کا فیصلہ کِیا تھا۔
مستیا ایک حسین اور سرسبز وادی میں واقع ہے جس کی چاروں طرف اُونچے اُونچے پہاڑوں کی برفپوش چوٹیاں نظر آتی ہیں۔ اِس پُرانے بُرج پر کھڑے ہوئے ہمیں ایسا لگا جیسے ہم کسی گزرے ہوئے زمانے میں آ گئے ہوں۔ دراصل ہم نے اِنہی قدیم بُرجوں کو دیکھنے کے لئے سوانیتی کا سفر کِیا تھا۔ آئیں، مَیں آپ کو اِس سفر کے بارے میں بتاتا ہوں۔
سوانیتی کی سیر
ہمارے سفر کا آغاز جارجیا کے شہر زُگددی سے ہوا۔ یہ شہر بحیرۂاسود کے قریب ہے۔ اُس دن آسمان صاف تھا اور ہمیں اُفق پر سوانیتی کے پہاڑوں کی سفید چوٹیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم دریائےاِنگوری پر پہنچے۔ اِس تیز رفتار دریا کے کنارے ایک تنگ سڑک پہاڑوں کے بیچوں بیچ جاتی ہے۔ اِس راستے پر سفر کرتے ہوئے ہم گھنے جنگلوں سے گزرے جو پھولدار جھاڑیوں سے آراستہ تھے۔
جب شام ہوئی تو ہم ایک چھوٹے سے گاؤں میں پہنچے جس کا نام بیچو تھا۔ یہ گاؤں کوہِاُشبا کے دامن میں آباد ہے۔ وہاں سے کوہِاُشبا کی شاندار جڑواں چوٹیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ حسین منظر دل کو موہ لیتا ہے۔ اِن چوٹیوں میں سے ایک ۴۷۱۰ میٹر (۱۵ ہزار ۴۵۳ فٹ) بلند ہے۔ جس طرح پروانے شمع کی طرف لپکتے ہیں اُسی طرح کوہپیمائی کے شوقین اُشبا کی اِن برفانی چوٹیوں کا رُخ کرتے ہیں۔
ہم اپنے طویل سفر سے بہت تھک چکے تھے اور بھوک سے نڈھال تھے۔ اِس لئے ہم نے ایک چرواہے سے ایک بھیڑ خریدی اور اِسے شام کے کھانے کے لئے تیار کِیا۔ لکڑیوں پر آگ جلا کر ہم نے شیش کباب پکائے۔ جن دوستوں کے ہاں ہم ٹھہرے، اُنہوں نے ہمارے لئے لواش پکائے۔ لواش تنور میں پکی ہوئی روٹی ہے۔ کھانے کے بعد ہم جارجیا کی خاص مے سے بھی لطفاندوز ہوئے۔ یہ کھانا ہمارے لئے کسی ضیافت سے کم نہیں تھا۔
اگلی صبح ہم مستیا کے لئے روانہ ہوئے۔ جب ہم مستیا پہنچے تو ہم اُس بُرج پر چڑھے جس کا ذکر مضمون کے شروع میں کِیا گیا ہے۔ وہاں کے نظاروں کو دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ لوگ کیوں کہتے ہیں کہ سوانیتی کا شمار دُنیا کے حسینترین پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے۔ مستیا سے تقریباً ۴۵ کلومیٹر (۲۸ میل) کے فاصلے پر اُشگولی نامی ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہے۔ یہ گاؤں ۲۲۰۰ میٹر (۷۲۲۰ فٹ) کی اُونچائی پر واقع ہے۔ اُشگولی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”یہ یورپ کا سب سے اُونچا گاؤں ہے جو پورا سال آباد رہتا ہے۔“
اِس گاؤں تک پہنچنے کا راستہ بہت دشوار تھا۔ اِس کے ایک طرف پہاڑ اور دوسری طرف گہری کھائی تھی۔ اِس تنگ اور سنسان راستے سے گزر کر آخرکار ہم اُشگولی پہنچے۔ جو نظارہ ہم نے وہاں دیکھا، وہ آج تک ہمارے ذہن پر نقش ہے۔ چھوٹےچھوٹے گھروں کے بیچ میں اُونچے اُونچے بُرج بنے ہوئے تھے۔ اِن کے پیچھے کوہِشکارا دکھائی دے رہا تھا۔ نیلے نیلے آسمان تلے اِس پر برف کی چادر دھوپ میں چمک رہی تھی۔
کوہِشکارا کی اُونچائی ۵۲۰۱ میٹر (۱۷ ہزار ۶۴ فٹ) ہے۔ یہ جارجیا کا سب سے اُونچا پہاڑ ہے۔ کوہِشکارا ایک ایسے پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے جو ۱۲ کلومیٹر (ساڑھے ۷ میل) لمبا ہے اور جس کی تمام چوٹیوں کی اُونچائی تقریباً ایک جیسی ہے۔ یوں یہ پہاڑ ایک بڑی سی دیوار کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پہاڑ کوہِقاف کے پہاڑی سلسلے میں شامل ہیں جو ۱۲۰۷ کلومیٹر (۷۵۰ میل) لمبا ہے۔ ہر طرف ہمیں ہری ہری وادیاں اور دلفریب منظر دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن اِن وادیوں تک پہنچنا نہایت مشکل ہے۔ وہاں صرف کوہپیما اور سوان قوم کے لوگ ہی پہنچ سکتے ہیں۔
سوانیتی کے باشندے
سوانیتی کے رہنے والے لوگوں کو سوان کہتے ہیں۔ وہ ایک قدیم قوم ہیں اور اپنی الگ زبان بولتے ہیں۔ قدیم زمانے سے ہی وہ اِس بات کے لئے مشہور ہیں کہ وہ کسی حکمران کے اختیار کو قبول نہیں کرتے۔ اٹھارھویں صدی کے ایک سیاح نے سوان قوم کے بارے میں کہا: ”اُنہوں نے ایک ایسا معاشرہ قائم کِیا ہے جس میں ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق جی سکتا ہے۔“
سوان قوم کی آزادی کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ وہ اُونچے اُونچے پہاڑوں کے بیچ میں رہ کر باقی دُنیا سے الگ تھے اور دوسری قوموں کے حملوں سے محفوظ تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ بُرجوں میں پناہ لے لیتے تھے جس کے نتیجے میں وہ دُشمنوں کے قبضے میں نہیں آتے تھے۔ بُرجوں کا ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ لوگ اِن میں برفانی تودوں سے بھی محفوظ رہتے تھے جبکہ چھوٹے گھر برف میں دب جاتے تھے۔
بُرجوں میں لوگوں کا رہنسہن
ہمیں ایک خاندان کے بُرج کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اِس بُرج کو بارھویں صدی میں بنایا گیا تھا۔ یہ بُرج ایک مضبوط چاردیواری میں بنا ہوا ہے اور اِس کے ساتھ ایک گھر جڑا ہوا ہے۔ گھر کی نچلی منزل میں آگ جلانے کی جگہ ہے جس سے گھر روشن اور گرم رہتا ہے۔ اِس کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ہماری نظر لکڑی کی ایک بڑی کُرسی پر پڑی جس پر پُرانے زمانے میں خاندان کا سربراہ بیٹھتا تھا۔ پورا خاندان ایک ہی گھر میں رہتا تھا۔ گھر کی بہو بیٹیاں مل بانٹ کر کام کرتی تھیں۔ وہ آٹا پیستی، روٹی پکاتی، صفائی کرتی، جانوروں کو چارہ ڈالتی اور آگ جلائے رکھتی تھیں۔
یہ بُرج پتھر کا بنا ہوا ہے اور اِس پر ہلکے زرد رنگ کا پلستر کِیا گیا ہے۔ اِس کی چار منزلیں ہیں جبکہ اِس کے ساتھ جڑا ہوا گھر دو منزلوں کا ہے۔ جب ہم بُرج میں داخل ہوئے تو شروع میں ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیا کیونکہ اِس کے اندر روشنی بہت مدھم تھی۔ لیکن چند لمحوں بعد ہماری آنکھیں اِس مدھم روشنی کی عادی ہو گئیں۔ بُرج کی نچلی منزلوں کو پانی، آٹا، پھل، پنیر، مے اور گوشت ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال کِیا جاتا تھا۔
حملے کی صورت میں گھر کے لوگ بُرج کی نچلی اور درمیانی منزلوں میں پناہ لیتے تھے۔ سب سے اُوپر والی منزل کی دیواروں میں تنگ سوراخ ہیں جن میں سے دُشمن پر جوابی حملہ کِیا جاتا تھا۔ اُنیسویں صدی میں سوانیتی آنے والے ایک سیاح نے کہا تھا کہ ”اِس علاقے میں حکومت کی بالکل نہیں چلتی۔ لوگ اپنے جھگڑے نپٹانے کے لئے عموماً ہتھیار اُٹھاتے ہیں۔“ ہر خاندان اپنی جان اور مال کی حفاظت کے لئے لڑنے کو تیار رہتا تھا۔
اِس یادگار سیر کے بعد جب ہم اپنے گھر لوٹے تو سوانیتی کے دلکش مناظر ہماری آنکھوں میں تھے۔ ہمارے دل زمین کے خالق یہوواہ خدا کے لئے شکرگزاری سے بھرے ہوئے تھے جس نے اِن حسین نظاروں کو بنایا ہے۔ جب خدا زمین پر ایک نئی دُنیا قائم کرے گا تو اِس میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہوں گے جو صدیوں پہلے سوانیتی کے بُرجوں میں رہتے تھے۔ اُس وقت کسی کو بھی اپنی حفاظت کے لئے بُرج یا قلعے بنانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پاک صحیفوں میں یہ وعدہ کِیا گیا ہے کہ ”تب ہر ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھے گا اور اُن کو کوئی نہ ڈرائے گا۔“—میکاہ ۴:۴؛ رومیوں ۸:۲۱، ۲۲۔
[صفحہ ۲۴ پر تصویر کا حوالہ]
Top: Paata Vardanashvili