عالمی اُفق
عالمی اُفق
”غریب ملکوں کی خواتین میں حمل اور زچگی کے دوران موت کی شرح امیر ملکوں کی خواتین کے مقابلے میں ۳۰۰ گُنا زیادہ ہے۔“ —فلپائن کا آنلائن اخبار بزنس ورلڈ۔
جرمنی میں کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق وہاں ۱۱ سے ۱۵ سال کے بچوں میں سے ۴۰ فیصد کو یہ معلوم نہیں کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے؛ اور ۶۰ فیصد بچے یہ نہیں جانتے کہ ایک پورے چاند کے بعد اگلا پورا چاند چار ہفتوں کے بعد نکلتا ہے۔ —جرمنی کا آنلائن اخبار ویلٹ۔
آثارِقدیمہ کے ماہرین نے فلسطین کے قدیم شہر جاد کے کھنڈرات میں ایک ایسا مندر دریافت کِیا ہے جو دو مرکزی ستونوں پر قائم تھا۔ اِس دریافت سے اُس واقعے کی تصدیق ہوتی ہے جو پاک صحیفوں میں سمسون کے بارے میں لکھا ہے۔ سمسون نے اِن دو مرکزی ستونوں کو ڈھا دیا تھا جس کی وجہ سے ساری عمارت گِر گئی۔ —اسرائیل کا اخبار دی جیروسلیم پوسٹ۔
غریب ملکوں میں دُلہن کی تلاش
فلپائن کے آنلائن اخبار بزنس ورلڈ کے مطابق ”ایشیا کے امیر ملکوں میں (مثلاً جاپان اور جنوبی کوریا میں) ایسے مردوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو غریب ملکوں میں (مثلاً ویتنام اور فلپائن میں) اپنے لئے دُلہن تلاش کرتے ہیں۔“ سن ۱۹۹۵ سے ۲۰۰۶ء کے دوران جاپان میں ایسے مردوں کی تعداد میں ۷۳ فیصد اضافہ ہوا جنہوں نے دوسرے ملکوں کی عورتوں سے شادی کی۔ اِس کی کیا وجہ تھی؟ بزنس ورلڈ کی رپورٹ میں بیان کِیا گیا کہ ”جاپان میں جو عورتیں خود کماتی ہیں، وہ کسی ایرے غیرے سے شادی نہیں کرنا چاہتیں۔“ اکثر وہ شادی کرنے سے ہی ہچکچاتی ہیں۔ اِس کے برعکس غریب ملکوں کی عورتیں امیر ملکوں کے ایسے مردوں سے بھی شادی کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں جو کوئی معمولی نوکری کرتے ہیں۔ اُن کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ایسے مردوں سے شادی کرکے ”اُن کی زندگی بن جائے گی۔“
ویبسائٹ کے ذریعے بےوفائی
انٹرنیٹ پر ایک ویبسائٹ ایسے لوگوں کا آپس میں رابطہ کراتی ہے جو کسی سے افیر چلانا چاہتے ہیں۔ یہ ویبسائٹ پانچ ملکوں میں اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔ اِس کا نعرہ یہ ہے: ”زندگی چار دن کی ہے۔ کسی کے ساتھ چکر چلاؤ۔“ اِس ویبسائٹ کے بانی کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے جیونساتھی سے بےوفائی کرنے پر نہیں اُکساتے کیونکہ جو لوگ اُن کی ویبسائٹ پر آتے ہیں ”وہ پہلے ہی سے افیر چلانے کا فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں۔ بےوفائی صرف اُس صورت میں مسئلہ بنتی ہے جب لوگ پکڑے جاتے ہیں۔ ہم تو بس لوگوں کو یہ موقع دیتے ہیں کہ جب وہ افیر چلائیں تو پکڑے نہ جائیں۔“ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ”ہم نے بےوفائی کا رواج تو شروع نہیں کِیا۔ ہم نے تو صرف اِسے آسان بنایا ہے۔“ اِس وقت ۶۴ لاکھ لوگ اِس ویبسائٹ کے ممبر ہیں۔
ہر انسان پیدائشی ڈانسر ہے
انگلینڈ اور فنلینڈ کی دو یونیورسٹیوں کے تحقیقدانوں نے ایک رپورٹ میں لکھا: ”موسیقی کی تال پر جھومنے کی صلاحیت صرف انسان ہی میں پائی جاتی ہے۔“ اِن تحقیقدانوں نے تجربوں میں دیکھا کہ جو بچے ابھی بول بھی نہیں سکتے تھے، وہ موسیقی سُن کر مٹکنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے تو وہ خوش ہو کر ہنستے تھے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ پیدائش ہی سے انسان میں موسیقی کی تال پر جھومنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اُسے یہ صلاحیت پیدا نہیں کرنی پڑتی۔