مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

انٹرویو | ماسیمو تستاریلی

ایک روبوٹ ڈیزائنر اپنے ایمان کے بارے میں بتاتے ہیں

ایک روبوٹ ڈیزائنر اپنے ایمان کے بارے میں بتاتے ہیں

پروفیسر ماسیمو تستاریلی اٹلی میں یونیورسٹی آف سساری میں ایک سائنس‌دان کے طور پر کام کرتے ہیں۔‏ وہ تین بین‌الاقوامی سائنسی رسالوں کے معاون ایڈیٹر ہیں اور اُنہوں نے ۱۰۰ سے زیادہ سائنسی رپورٹیں شائع کی ہیں۔‏ وہ انسانوں کے بصری نظام پر تحقیق کرتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں وہ اِس بات پر تحقیق کرتے ہیں کہ انسان ایک دوسرے کا چہرہ کیسے پہچان پاتے ہیں اور گیند کو کیسے کیچ کر لیتے ہیں جو دِکھنے میں بہت آسان سا کام ہے لیکن دراصل بہت پیچیدہ عمل ہے۔‏ پھر وہ روبوٹس کے لئے بھی ایسا ہی بصری نظام ڈیزائن کرتے ہیں۔‏ جاگو!‏ کے ناشرین نے اُن سے اُن کے ایمان اور کام کے بارے میں کچھ سوال پوچھے۔‏

مذہب کے لحاظ سے آپ کا پس‌منظر کیا ہے؟‏

میرے والدین مذہب کے لحاظ سے کیتھولک تھے لیکن وہ چرچ نہیں جاتے تھے۔‏ جب مَیں جوان تھا تو مجھے لگا کہ کوئی خدا نہیں ہے۔‏ مَیں نے سیکھا کہ زندگی ارتقا کے ذریعے وجود میں آئی اور مَیں نے اِس بات کو سچ مان لیا۔‏ حالانکہ مَیں یہ نہیں مانتا تھا کہ خدا نے ہم سب کو پیدا کِیا ہے مگر پھر بھی مجھے لگتا تھا کہ کوئی نہ کوئی ہے جو انسانوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔‏ اِس لئے مَیں نے بدھ‌مت،‏ ہندومت اور تاؤمت کے بارے میں سیکھا۔‏ لیکن مجھے اُن کی تعلیمات سے اپنے سوالوں کے جواب نہیں ملے۔‏

آپ کس وجہ سے سائنس میں دلچسپی لینے لگے؟‏

مجھے بچپن سے ہی مشینوں سے بڑا لگاؤ تھا۔‏ مَیں اپنے کھلونوں کے پُرزے کھولتا اور پھر اُن کو واپس جوڑتا۔‏ میرے والد ایک انجینئر تھے اور اُن کے کام کا تعلق ریڈیو اور ٹیلیفون سے تھا۔‏ مَیں اِن کے بارے میں اپنے والد سے بہت سے سوال پوچھتا تھا۔‏

آپ نے سائنس‌دان کے طور پر اپنے کام کی شروعات کیسے کی؟‏

میں نے یونیورسٹی آف جینوا سے الیکٹرانک انجینئرنگ پڑھی۔‏ اِس کے بعد مَیں نے ایک اَور ڈگری حاصل کرنے کے لئے اِس بارے میں تحقیق کی کہ ایک بہتر روبوٹ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔‏ اِس کے لئے مَیں نے خاص طور پر انسانوں کے بصری نظام پر تحقیق کی۔‏ مَیں روبوٹ کے لئے بھی ویسا ہی بصری نظام ڈیزائن کرنے لگا جیسا انسانوں میں ہے۔‏

آپ انسانوں کے بصری نظام کے بارے میں ہی کیوں تحقیق کرنا چاہتے تھے؟‏

کیونکہ یہ بہت ہی پیچیدہ نظام ہے۔‏ بصری نظام میں صرف آنکھیں شامل نہیں ہیں۔‏ اِس میں دیکھی ہوئی چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت بھی شامل ہے۔‏ مثال کے طور پر غور کریں کہ جب آپ گیند کو کیچ کر رہے ہوتے ہیں تو اِس دوران کیاکیا ہوتا ہے۔‏ جب آپ گیند کی طرف بھاگتے ہیں تو آپ کی آنکھ کے پردے پر گیند کی تصویر بن جاتی ہے۔‏ حالانکہ گیند ایک طرف جاتی ہے اور آپ اُسے پکڑنے کے لئے اُس کی طرف بھاگ رہے ہوتے ہیں پھر بھی گیند کی تصویر آنکھ کے پردے پر ایک ہی جگہ پر جمی رہتی ہے۔‏

اِسی دوران آپ کا بصری نظام گیند کی رفتار اور اُس سمت کا اندازہ لگا رہا ہوتا ہے جس طرف گیند جا رہی ہوتی ہے۔‏ حیرت کی بات ہے کہ اندازہ لگانے کا یہ کام آپ کی آنکھ کے پردے سے شروع ہوتا ہے۔‏ پھر بصری ریشہ آنکھ کے پردے سے ملنے والی معلومات کو دماغ تک پہنچاتا ہے۔‏ اور آپ کا دماغ اِسی معلومات کی بِنا پر آپ کی رہنمائی کرتا ہے تاکہ آپ گیند کو کیچ کر سکیں۔‏ یہ سارا عمل واقعی بڑا شاندار ہے!‏

آپ کس وجہ سے خالق پر یقین کرنے لگے؟‏

سن ۱۹۹۰ء میں مَیں کچھ مہینوں کے لئے آئرلینڈ کے شہر ڈبلن کی ایک مشہور یونیورسٹی میں گیا۔‏ جب مَیں اور میری بیوی باربرا آئرلینڈ سے واپس آ رہے تھے تو ہم اِس بارے میں بات کر رہے تھے کہ ہمارے بچے بڑے ہو کر کیا کریں گے۔‏ ہم میری بڑی بہن سے بھی ملنے گئے۔‏ وہ یہوواہ کی گواہ ہیں۔‏ اُنہوں نے مجھے یہوواہ کے گواہوں کی ایک کتاب دی جس میں ارتقا کے نظریے اور تخلیق کی تعلیم کا موازنہ کِیا گیا ہے۔‏ اِس کتاب کو بڑی تحقیق کرکے لکھا گیا ہے۔‏ اِسے پڑھ کر مَیں بہت متاثر ہوا۔‏ مجھے احساس ہوا کہ مَیں نے بس آنکھیں بند کرکے ارتقا کے نظریے پر یقین کر لیا تھا۔‏ مثال کے طور پر مجھے لگتا تھا کہ جانداروں کی قدیم باقیات ارتقا کے نظریے کو ثابت کرتی ہیں۔‏ لیکن ایسا نہیں ہے۔‏ جتنا زیادہ مَیں نے ارتقا کے نظریے پر تحقیق کی اُتنا ہی زیادہ مجھے اِس بات کا یقین ہو گیا کہ یہ نظریہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔‏

مَیں نے سوچا کہ مَیں کس کے ڈیزائن کی نقل کرکے روبوٹس ڈیزائن کرتا ہوں؟‏

پھر مَیں نے سوچا کہ مَیں کس کے ڈیزائن کی نقل کرکے روبوٹس ڈیزائن کرتا ہوں؟‏ مَیں تو کبھی بھی ایسا روبوٹ ڈیزائن نہیں کر سکتا جو ہماری طرح گیند کو کیچ کر سکے۔‏ ایک روبوٹ بھی گیند کو کیچ کر سکتا ہے۔‏ لیکن وہ صرف اُن صورتوں میں گیند کو کیچ کرے گا جن کے لئے اُس میں پروگرام ڈالا گیا ہے۔‏ کسی مشین کی نسبت انسان میں سیکھنے کی صلاحیت کہیں زیادہ ہے۔‏ اور مشینوں کو تو انسانوں نے ہی بنایا ہے!‏ یہ بھی ایک ایسی حقیقت تھی جس کی وجہ سے مَیں سمجھ گیا کہ انسانوں کو ضرور کسی نے بنایا ہے۔‏

آپ نے یہوواہ کا گواہ بننے کا فیصلہ کیوں کِیا؟‏

دراصل مجھے اور باربرا کو یہوواہ کے گواہوں کی یہ بات بہت پسند آئی کہ وہ بڑے اچھے طریقے سے پاک کلام کی تعلیم دیتے ہیں۔‏ مَیں اِس بات سے بڑا متاثر ہوا کہ وہ بہت تحقیق کرنے کے بعد ایک مضمون کو اپنی کتابوں اور رسالوں میں شائع کرتے ہیں۔‏ چونکہ مَیں بات کی گہرائی تک پہنچنا چاہتا ہوں اِس لئے مجھے ایسے مضمون بہت اچھے لگتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر مَیں بائبل میں درج پیشین‌گوئیوں میں بہت زیادہ دلچسپی لینے لگا۔‏ جب مَیں نے اِن پیشین‌گوئیوں کا گہرائی سے مطالعہ کِیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ بائبل خدا کی طرف سے ہی ہے۔‏ مَیں نے اور باربرا نے ۱۹۹۲ء میں یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔‏

کیا سائنس پڑھنے سے آپ کا ایمان کمزور ہو گیا؟‏

نہیں بلکہ مَیں تو یہ کہوں گا کہ سائنس کی وجہ سے میرا ایمان اَور مضبوط ہوا ہے۔‏ مثال کے طور پر غور کریں کہ ہم ایک دوسرے کا چہرہ کیسے پہچان پاتے ہیں۔‏ ایک بچہ پیدا ہونے کے کچھ گھنٹے بعد ہی چہرے پہچاننے لگتا ہے۔‏ ہم اپنے جاننے والوں کا چہرہ ہزاروں کی بِھیڑ میں بھی فوراً پہچان سکتے ہیں۔‏ یہاں تک کہ ہم اُس وقت اُن کے احساسات اور جذبات کو بھی پہچان سکتے ہیں۔‏ لیکن اِس دوران ہمیں اِس بات کا پتہ بھی نہیں چلتا کہ ہمارا بصری نظام کتنی تیزی سے کام کر رہا ہے۔‏

مجھے پورا یقین ہے کہ ہمارا بصری نظام دراصل یہوواہ خدا کی نعمت ہے۔‏ اُس کا پاک کلام بھی ایک نعمت ہے جس کے لئے مَیں اُس کا شکر ادا کرتا ہوں۔‏ مَیں دوسروں کو بھی خدا کے بارے میں بتاتا ہوں کیونکہ مَیں چاہتا ہوں کہ لوگ خدا کی نعمتوں کے لئے اُس کی تعریف کریں۔‏