سرِورق کا موضوع
کیا پیسہ ہی سب کچھ ہے؟
کہتے ہیں کہ ”دُنیا پیسے سے چلتی ہے۔“ اور یہ بات ایک حد تک صحیح بھی ہے کیونکہ ضروریاتِزندگی پوری کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مالی معاملوں کے متعلق ایک رسالے میں لکھا ہے: ”معاشرے میں پیسوں کی بڑی اہمیت ہے۔ . . . اگر خریدوفروخت کے لیے پیسوں کا اِستعمال اچانک بند کر دیا جائے تو ایک مہینے کے اندر اندر ہر طرف پریشانی کا عالم ہوگا اور پوری دُنیا میں جنگ چھڑ جائے گی۔“
لیکن پیسوں سے سب کچھ حاصل نہیں کِیا جا سکتا۔ ملک ناروے کے شاعر ارنے گائبرک نے کہا کہ پیسوں سے ”ہم کھانا خرید سکتے ہیں لیکن کھانے کا شوق نہیں؛ دوائی خرید سکتے ہیں لیکن صحت نہیں؛ نرم بستر خرید سکتے ہیں لیکن نیند نہیں؛ علم خرید سکتے ہیں لیکن دانشمندی نہیں؛ ظاہری خوبصورتی خرید سکتے ہیں لیکن باطنی خوبصورتی نہیں؛ . . . تفریح خرید سکتے ہیں لیکن خوشی نہیں؛ واقفکار خرید سکتے ہیں لیکن دوست نہیں؛ نوکر خرید سکتے ہیں لیکن وفاداری نہیں۔“
جو لوگ پیسے کو حد سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، وہ زیادہ مطمئن رہتے ہیں۔ ایسے لوگ پیسوں کو منزل نہیں بلکہ منزل کی طرف لے جانے والا راستہ سمجھتے ہیں۔ خدا کے کلام میں یہ آگاہی دی گئی ہے: ”پیسوں کا لالچ ہر غلط کام کا سرچشمہ ہے۔ کئی لوگوں نے اِسی لالچ کے باعث . . . اپنے آپ کو بہت اذیت پہنچائی ہے۔“—1-تیمُتھیُس 6:10، اُردو جیو ورشن۔
غور کریں کہ خدا کے کلام میں پیسے کو نہیں بلکہ پیسے کے لالچ کو نقصاندہ کہا گیا ہے۔ پیسوں کو حد سے زیادہ اہم خیال کرنے سے دوستوں میں جُدائی اور رشتوں میں دراڑ پیدا ہو سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں دو مثالوں پر غور کریں۔
* ”تھامس میرا بہت اچھا دوست تھا۔ وہ بہت ہی ہنسمکھ اور دیانتدار تھا۔ ہم میں کبھی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ پھر ایک دن اُس نے میری پُرانی گاڑی خرید لی۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ گاڑی میں کوئی خرابی ہے اور تھامس نے بھی گاڑی دیکھ کر دستخط کیے کہ وہ اِس کی حالت سے مطمئن ہے۔ پھر تین مہینے بعد گاڑی بند ہو گئی۔ تھامس کو لگا کہ مَیں نے اُسے دھوکا دیا ہے۔ اُس نے اِصرار کِیا کہ مَیں اُسے پیسے واپس کروں۔ مجھے بڑا دُکھ ہوا۔ جب مَیں نے اُس سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ مجھ پر برس پڑا۔ افسوس کی بات ہے کہ جوں ہی پیسوں کا مسئلہ کھڑا ہوا، تھامس بالکل بدل گیا۔“
ڈینیایل:کلثوم: ”ثریا کے علاوہ میری کوئی اَور بہن یا بھائی نہیں ہے۔ ہم ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے تھے۔ مجھے اِس بات کا گمان بھی نہیں تھا کہ پیسوں کی وجہ سے ہمارے بیچ دُوری پیدا ہو جائے گی۔ مگر ایسا ہو گیا۔ ہمارے والدین نے فوت ہونے سے پہلے یہ فیصلہ کِیا تھا کہ ورثہ ہم دونوں بہنوں میں برابر تقسیم کِیا جائے گا۔ لیکن اُن کی وفات کے بعد میری بہن نے کہا کہ اُسے زیادہ حصہ چاہیے۔ مَیں نے اُس کی بات نہیں مانی کیونکہ مَیں امی ابو کے فیصلے پر عمل کرنا چاہتی تھی۔ اِس پر وہ آگبگولا ہو گئی اور مجھے دھمکانے لگی۔ وہ آج تک مجھ سے سخت ناراض ہے۔“
تعصب کا باعث
پیسوں کو حد سے زیادہ اہمیت دینے سے تعصب پیدا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر شاید ایک امیر شخص کو لگے کہ غریب لوگ سُست ہیں اور اِس لیے اپنی حالت میں بہتری نہیں لاتے یا شاید ایک غریب شخص اُن لوگوں کو لالچی خیال کرنے لگے جن کی مالی حالت اُس سے بہتر ہے۔ 17 سالہ لائلہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جس کی وجہ سے اُنہیں تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں:
پیسوں کے متعلق پاک کلام کی تعلیم آج بھی اُتنی ہی فائدہمند ہے جتنی کہ اُس وقت تھی جب اِسے لکھا گیا تھا۔
”میرے بارے میں مشہور تھا کہ میرے ابو بہت کماتے ہیں۔ میرے دوست اکثر مجھ سے کہتے تھے کہ ”تمہاری تو عیش ہے، بس فرمائش کرو اور ڈیڈی پوری کر دیں گے!“ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ”ہم تمہاری طرح امیر نہیں کہ مہنگی مہنگی گاڑیاں چلائیں!“ آخرکار مَیں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ وہ مجھ سے ایسی باتیں مت کہیں کیونکہ اِن سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ مَیں چاہتی تھی کہ میری پہچان ایک امیر لڑکی کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسی لڑکی کے طور پر ہو جو دوسروں کا خیال رکھتی ہے۔“
پاک کلام کی تعلیم
خدا کے کلام میں نہ تو پیسے کو بُرا کہا گیا ہے اور نہ ہی امیر لوگوں کو۔ دراصل بات یہ نہیں کہ ایک شخص کے پاس کتنا پیسہ ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ پیسے کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ پیسوں کے بارے میں پاک کلام کی تعلیم آج بھی اُتنی ہی فائدہمند ہے جتنی کہ اُس وقت تھی جب اِسے لکھا گیا تھا۔ آئیں، اِس سلسلے میں کچھ آیتوں پر غور کرتے ہیں۔
پاک کلام میں لکھا ہے: ”اپنی پوری طاقت امیر بننے میں صرف نہ کر۔“—امثال 23:4، اُردو جیو ورشن۔
کتاب نفسپرستی کی وبا (انگریزی میں دستیاب) میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ مالودولت کے پیچھے بھاگتے ہیں، وہ دوسروں کی نسبت ”نفسیاتی مسائل کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو صحت کے مسائل کی بھی زیادہ شکایت رہتی ہے جیسے کہ خراب گلا، کمردرد اور سردرد۔ اکثر ایسے لوگ حد سے زیادہ شراب پیتے ہیں اور منشیات کا اِستعمال کرتے ہیں۔ لگتا ہے کہ زیادہ پیسہ حاصل کرنے کی چاہت لوگوں کی خوشی کو تباہ کر دیتی ہے۔“
عبرانیوں 13:5، اُردو جیو ورشن۔
پاک کلام میں لکھا ہے: ”آپ کی زندگی پیسوں کے لالچ سے آزاد ہو۔ اُسی پر اِکتفا کریں جو آپ کے پاس ہے۔“—سچ ہے کہ جو لوگ اپنے مالی حالات سے مطمئن ہیں، اُنہیں بھی وقتاًفوقتاً پیسوں کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن وہ حد سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر اگر وہ مالی نقصان اُٹھاتے ہیں تو وہ اِسے المیہ نہیں سمجھتے۔ اِس کی بجائے وہ یسوع مسیح کے شاگرد پولُس جیسا نظریہ اپناتے ہیں، جنہوں نے کہا: ”مَیں ناداری سے واقف ہوں اور مَیں نے فراوانی کے دن بھی دیکھے ہیں۔ چاہے مَیں سیروآسودہ ہوں، چاہے فاقہ کرتا ہوں، چاہے میرے پاس ضرورت سے زیادہ ہو، مَیں نے ہر وقت اور ہر حال میں خوش رہنا سیکھا ہے۔“—فِلپّیوں 4:12، نیو اُردو بائبل ورشن۔
پاک کلام میں لکھا ہے: ”جو اپنے مال پر بھروسا کرتا ہے گِر پڑے گا۔“—امثال 11:28۔
تحقیقدان کہتے ہیں کہ میاں بیوی اکثر اِس لیے طلاق لیتے ہیں کیونکہ اُن میں پیسوں کی وجہ سے اِختلافات ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ مالی مسائل کی وجہ سے خودکُشی بھی کر لیتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ پیسوں کو شادی کے بندھن، یہاں تک کہ اپنی زندگی سے بھی زیادہ اہم خیال کرتے ہیں! البتہ سمجھدار لوگ روپے پیسے پر بھروسا نہیں کرتے۔ اِس کی بجائے وہ یسوع مسیح کی اِس بات کو یاد رکھتے ہیں: ”کسی کی زندگی اُس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔“—لُوقا 12:15۔
آپ پیسے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟
صرف چند ہی سوالوں پر غور کرنے سے آپ جان سکتے ہیں کہ آیا آپ کو پیسے کے بارے میں اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ خود سے پوچھیں:
-
کیا مَیں راتوں رات امیر بننے والی سکیموں میں دلچسپی لیتا ہوں؟
-
کیا مَیں فراخدل ہوں؟
-
کیا مجھے ایسے لوگوں سے دوستی کرنا پسند ہے جو ہر وقت اپنی مہنگی چیزوں اور پیسے کے بارے میں بات کرتے ہیں؟
-
کیا مَیں پیسہ کمانے کی خاطر جھوٹ بولنے اور بددیانتی کرنے کو تیار ہوں؟
-
کیا مَیں خود کو اِس لیے اہم سمجھتا ہوں کیونکہ میرے پاس پیسہ ہے؟
-
کیا مَیں سارا وقت پیسوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں؟
-
کیا مَیں پیسوں کو اِس قدر اہمیت دیتا ہوں کہ میری صحت خراب ہو رہی ہے اور میرے گھر والے مجھ سے دُور ہو رہے ہیں؟
فیاضی سے کام لینا سیکھیں۔
اگر آپ نے اِن سوالوں میں سے کسی بھی سوال کا جواب ”ہاں“ میں دیا ہے تو اپنی سوچ بدلنے کی بھرپور کوشش کریں۔ امیر بننے اور طرح طرح کی چیزیں خریدنے کے خیال کو رد کریں۔ ایسے لوگوں سے دوستی نہ کریں جو روپے پیسے اور مالودولت کو حد سے زیادہ اہم خیال کرتے ہیں۔ اِس کی بجائے ایسے لوگوں سے دوستی کریں جو پیسے کمانے کی نسبت اعلیٰ اخلاقی معیار رکھنے کو اہم خیال کرتے ہیں۔
اپنے دل میں پیسوں کے لالچ کو جڑ نہ پکڑنے دیں۔ کبھی بھی پیسوں کو اپنے دوستوں اور رشتےداروں اور اپنی جسمانی اور ذہنی صحت سے بلند درجہ نہ دیں۔ اِن ہدایتوں پر عمل کرنے سے آپ سمجھداری ظاہر کریں گے اور پیسوں کو منزل نہیں بلکہ راستہ خیال کریں گے۔
^ پیراگراف 7 اِس مضمون میں فرضی نام اِستعمال کیے گئے ہیں۔