پریتورین سپاہیوں میں بادشاہت کی خوشخبری پھیل گئی
یہ سن ۵۹ء کی بات ہے۔ طویل سفر سے تھکےہارے سپاہیوں کی نگرانی میں بہت سے قیدی ایک بڑے پھاٹک، پورتا کاپینا سے شہر روم میں داخل ہوئے۔ اُنہوں نے شہنشاہ نیرو کے محل کو دیکھا جو پلاٹینی کی پہاڑی پر واقع تھا۔ اِس محل کی حفاظت کے لئے جو فوجی دستے مقرر کئے گئے تھے، وہ پریتورین کہلاتے تھے۔ یہ فوجی اپنی تلواریں ٹوگا (لباس کے اُوپر باندھی جانے والی ایک لمبی چادر) کے نیچے چھپا کر رکھتے تھے۔ * قیدی اور سپاہی، صوبہدار یولیس کے ہمراہ ایک عمارت (رومن فورم) کے پاس سے گزرے جو کاروباری اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ پھر وہ ویمینال کی پہاڑی پر چڑھے۔ چلتےچلتے وہ ایک باغ کے پاس سے گزرے جس میں روم کے دیوتاؤں کے لئے بہت سی قربانگاہیں بنی ہوئی تھیں۔ پھر وہ ایک بڑے میدان کے قریب سے گزرے جہاں سپاہی جنگی مشقیں کرتے تھے۔
اِن قیدیوں میں سے ایک پولس رسول تھے۔ کچھ ماہ پہلے جب وہ سمندری طوفان میں گِھرے ہوئے جہاز میں سوار تھے تو خدا کے فرشتے نے اُن سے کہا تھا: ”ضرور ہے کہ تُو قیصرؔ کے سامنے حاضر ہو۔“ (اعما ۲۷:۲۴) اب جبکہ وہ روم پہنچ چکے تھے تو کیا فرشتے کی بات واقعی سچ ہونے والی تھی؟ جب پولس رسول نے پیچھے مڑ کر اِس عالیشان شہر پر نظر ڈالی تو اُنہیں بِلاشُبہ یسوع مسیح کی وہ بات یاد آئی ہوگی جو اُنہوں نے یروشلیم میں انطونیا کے مینار پر پولس سے کہی تھی۔ یسوع مسیح نے کہا تھا: ”خاطر جمع رکھ جیسے تُو نے میری بابت یرؔوشلیم میں گواہی دی ہے ویسے ہی تجھے رؔومہ میں بھی گواہی دینا ہوگا۔“—اعما ۲۳:۱۰، ۱۱۔
شاید پولس رسول بہت بڑے قلعے کاسترا پریتوریا کو دیکھنے کے لئے رُکے ہوں۔ اِس قلعے کی اُونچی دیواریں سُرخ اینٹوں سے بنی ہوئی تھیں اور اِن پر مورچے بنائے گئے تھے۔ قلعے کے اندر پریتورین فوجی رہتے تھے جن کا کام شہنشاہ کی حفاظت اعما ۲۷:۱-۳، ۴۳، ۴۴۔
کرنا اور شہر میں امنوامان قائم رکھنا تھا۔ اِس قلعے میں ہزاروں لوگوں کے رہنے کی گنجائش تھی۔ اِس میں تقریباً ۱۲ ہزار تو پریتورین فوجی ہی رہتے تھے۔ اِن کے علاوہ ہزاروں دیگر سپاہی اور گُھڑسوار فوجی دستے بھی اِسی قلعے میں رہتے تھے۔ کاسترا پریتوریا واقعی رومی شہنشاہ کی طاقت کی یاد تازہ کرتا ہے۔ مختلف صوبوں سے لائے جانے والے قیدیوں کی نگرانی کرنا بھی پریتورین فوجیوں کی ذمہداری تھی۔ اِسی لئے پریتورین صوبہدار یولیس قیدیوں کو روم لے کر آئے۔ کئی مہینوں کے خطرناک سفر کے بعد آخرکار اُنہوں نے قیدیوں کو اُن کی منزل پر پہنچا دیا۔—بغیر روک ٹوک مُنادی کرنے کی اجازت
روم کے سفر کے دوران بہت سے حیرتانگیز واقعات پیش آئے تھے۔ ایک فرشتے نے پولس رسول کو بتایا تھا کہ جہاز تباہ ہو جائے گا مگر تمام مسافر بچ جائیں گے۔ جب وہ ملتے یعنی مالٹا کے جزیرے پر پہنچے تو پولس رسول کو ایک سانپ نے کاٹا مگر وہ بچ گئے۔ اِسی جزیرے پر اُنہوں نے بہت سے بیماروں کو شفا بھی دی۔ اِس وجہ سے مقامی لوگ پولس کو دیوتا کہنے لگے۔ ہو سکتا ہے کہ اِن ساری باتوں کی خبر دوسرے پریتورین فوجیوں کے کانوں تک بھی پہنچی ہو۔
روم پہنچنے سے پہلے ہی پولس رسول کی ملاقات روم کے کچھ بھائیوں سے ہو چکی تھی جو ”اؔپیس کے چوک اور تینؔسرای“ میں اُن سے ملنے آئے تھے۔ (اعما ۲۸:۱۵) پولس رسول، روم میں بھی خدا کی بادشاہت کا پیغام سنانا چاہتے تھے۔ لیکن اُن کی یہ خواہش کیسے پوری ہو سکتی تھی کیونکہ وہ تو روم میں ایک قیدی تھے؟ (روم ۱:۱۴، ۱۵) بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قیدیوں کو پریتورین فوجیوں کے سربراہ کے حوالے کِیا جاتا تھا۔ اگر یہ سچ ہے تو پولس رسول کو غالباً افرانیس بررس کے سپرد کِیا گیا ہوگا جو شہنشاہ کے بعد دوسرے درجے پر تھے۔ * بہرحال پولس رسول اب صوبہداروں کی نگرانی میں نہیں بلکہ ایک عام پریتورین سپاہی کی نگرانی میں تھے۔ وہ اپنی رہائش کا اِنتظام خود کر سکتے تھے اور اُنہیں لوگوں سے ملنے اور ”بغیر روک ٹوک کے خدا کی بادشاہی کی مُنادی“ کرنے کی اجازت تھی۔—اعما ۲۸:۱۶، ۳۰، ۳۱۔
پولس رسول نے ہر ’چھوٹے بڑے کو گواہی‘ دی
پولس رسول کو شہنشاہ نیرو کے سامنے پیش کرنے سے پہلے شاید بررس نے اُن سے پوچھگچھ کی ہوگی۔ یہ باتچیت یا تو محل میں یا پھر پرریتورین سپاہیوں کے کیمپ میں ہوئی ہوگی۔ پولس رسول نے اِس بڑے عہدے والے شخص کو گواہی دینے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ (اعما ۲۶:۱۹-۲۳) ہم یہ تو نہیں جانتے کہ اِس تفتیش کے بعد پولس رسول کے بارے میں بررس کی رائے کیا تھی مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ پولس رسول کو پرریتورین کیمپ کی جیل میں نہیں ڈالا گیا تھا۔ *
اعما ۲۸:۱۷، ۲۳۔
پولس رسول کے کرائے کے گھر میں کافی لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ ’یہودیوں کے رئیس‘ اور دوسرے بہت سے لوگ اِسی گھر میں اُن سے ملنے آئے تھے اور پولس رسول نے اُنہیں مسیح کے بارے میں گواہی دی۔ پولس رسول، پریتورین سپاہی کی موجودگی میں یہودیوں کے ساتھ ”صبح سے شام تک“ خدا کی بادشاہت اور یسوع مسیح کے بارے میں باتچیت کرتے تھے۔ لہٰذا جو بھی سپاہی اُن کی نگرانی کرنے کے لئے آتا تھا، وہ ساری باتچیت سنتا تھا۔—محل کی حفاظت پر تعینات پریتورین دستے کی ڈیوٹی ہر روز آٹھویں گھنٹے یعنی دوپہر دو بجے بدلتی تھی۔ پولس رسول کی نگرانی کرنے والے سپاہیوں کی ڈیوٹی بھی بدلتی تھی۔ پولس رسول اپنے کرائے کے گھر میں دو سال تک قید رہے۔ اِس دوران اُنہوں نے افسیوں، فلپیوں، کلسیوں اور عبرانیوں کی کلیسیا کے نام خط لکھوائے۔ یقیناً کئی سپاہیوں نے وہ باتیں سنیں جو پولس رسول نے اِن خطوں میں لکھوائیں۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے اپنے ہاتھ سے فلیمون کے نام خط لکھا تھا۔ کچھ سپاہیوں نے اُنہیں یہ خط لکھتے دیکھا تھا۔ قید کے دوران ہی اُنہوں نے اُنیسمس نامی غلام کو بھی بادشاہت کی خوشخبری سنائی جو اپنے مالک کو چھوڑ کر بھاگ آئے تھے۔ اُنیسمس، مسیح پر ایمان لے آئے اور پولس رسول نے اُنہیں واپس اُن کے مالک کے پاس بھیج دیا۔ (فلیمون ۱۰) پولس رسول یقیناً اُن سپاہیوں سے بھی بات کرتے تھے جو اُن کی نگرانی کرنے آتے تھے۔ (۱-کر ۹:۲۲) جب پولس رسول نے اپنے خط میں رومی سپاہیوں کے ہتھیاروں کی تمثیل استعمال کی تو شاید اُنہوں نے اِن ہتھیاروں کے بارے میں معلومات اِنہی سپاہیوں سے لی ہوں۔—افس ۶:۱۳-۱۷۔
’بےخوف خدا کا کلام سنائیں‘
پولس رسول کی قید کے عرصے میں خوشخبری کا پیغام سارے پریتورین سپاہیوں اور بہت سے دیگر لوگوں میں بھی پھیل گیا۔ (فل ۱:۱۲، ۱۳) پریتورین فوجیوں کی مختلف شہروں میں بڑی واقفیت تھی۔ اِس کے علاوہ اُن کی جانپہچان شہنشاہ اور اُس کے گھرانے سے بھی تھی جس میں شہنشاہ کے بیویبچے، قریبی رشتہدار، نوکرچاکر اور غلام شامل تھے۔ پریتورین سپاہیوں کی اِسی جانپہچان کی وجہ سے خوشخبری شہنشاہ کے گھرانے تک بھی پہنچ گئی جس میں سے کچھ لوگ مسیحی بن گئے۔ (فل ۴:۲۲) پولس رسول کی دلیری کی وجہ سے روم کے بہنبھائیوں کو بھی ”بےخوف خدا کا کلام سنانے“ کا حوصلہ ملا۔—فل ۱:۱۴۔
پولس رسول نے جس طرح روم میں مُنادی کا کام کِیا، اُس سے ہمیں بھی یہ حوصلہ ملتا ہے کہ ہم ”وقت اور بےوقت“ یعنی ہر موقعے پر دلیری سے بادشاہت کا پیغام سنائیں۔ (۲-تیم ۴:۲) بعض بہنبھائی شاید کسی بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں جا سکتے، بعض شاید ہسپتال میں ہیں یا پھر مُنادی کا کام کرنے کی وجہ سے جیل میں ہیں۔ ہمارے حالات چاہے جیسے بھی ہوں، ہم اُن لوگوں کے ساتھ بات کر سکتے ہیں جو ہم سے ملنے آتے ہیں، مثلاً الیکٹریشن، ڈاکٹر، نرس یا کوئی افسر وغیرہ۔ جب ہم دلیری سے ہر موقعے پر بادشاہت کی خوشخبری سناتے ہیں تو ہم اِس بات کا ثبوت دیکھ سکتے ہیں کہ ’خدا کے کلام کو قید نہیں‘ کِیا جا سکتا۔—۲-تیم ۲:۸، ۹۔
^ پیراگراف 2 بکس ”نیرو کے زمانے میں پریتورین سپاہیوں کے فرائض“ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 7 بکس ”پریتورین سپاہیوں کے سربراہ افرانیس بررس“ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 9 قیصر تبریس نے ہیرودیس اگرپا کو ۳۶/۳۷ء میں اِسی جیل میں قید کِیا تھا کیونکہ اگرپا نے کہا تھا کہ کلیگولا کو شہنشاہ بننا چاہئے۔ جب کلیگولا شہنشاہ بنے تو اُنہوں نے اگرپا کو یہودیہ کا بادشاہ بنا دیا۔—اعما ۱۲:۱۔