اُنہوں نے اپنے آپ کو خوشی سے پیش کِیا—فلپائن میں
آج سے کوئی دس سال پہلے گریگوریو اور اُن کی بیوی ماریلو، فلپائن کے شہر منیلا میں پہلکاروں کے طور پر خدمت کرتے تھے۔ اُس وقت اُن دونوں کی عمر ۳۰ سال سے کچھ زیادہ تھی۔ وہ دونوں خدمت کرنے کے ساتھساتھ کُلوقتی ملازمت بھی کرتے تھے۔ اگرچہ یہ دونوں کام اِکٹھے کرنا مشکل تھا پھر بھی گریگوریو اور ماریلو اِنہیں جاری رکھے ہوئے تھے۔ پھر ماریلو کی ترقی ہو گئی اور جس بینک میں وہ کام کرتی تھیں، اُنہیں وہاں کا مینیجر بنا دیا گیا۔ ماریلو نے کہا: ”ہم دونوں کی اچھی خاصی تنخواہ تھی اِس لئے ہم پُرآسائش زندگی گزار رہے تھے۔“ چونکہ اُنہیں پیسے کی کوئی تنگی نہیں تھی اِس لئے اُنہوں نے فیصلہ کِیا کہ وہ منیلا سے کوئی ۱۹ کلومیٹر (۱۲ میل) دُور اچھے سے علاقے میں اپنے خوابوں کا گھر بنائیں گے۔ اُنہوں نے یہ گھر بنانے کا ٹھیکہ ایک کمپنی کو دے دیا اور یہ طے پایا کہ وہ کمپنی کو دس سال تک ماہانہ قسطیں ادا کریں گے۔
”مجھے لگا کہ مَیں یہوواہ خدا سے بےایمانی کر رہی ہوں“
ماریلو نے بتایا: ”میرا نیا کام میرا بہت سا وقت اور توانائی ہڑپ کر جاتا تھا۔ اِس لئے میرا اِجلاسوں میں اور مُنادی کے کام میں جانے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ مجھے لگا کہ مَیں یہوواہ خدا سے بےایمانی کر رہی ہوں۔ مَیں یہوواہ خدا کی خدمت میں اب اُتنا وقت نہیں لگا رہی تھی جتنا مَیں پہلے لگاتی تھی۔“ گریگوریو اور ماریلو اِس صورتحال سے خوش نہیں تھے۔ اِس لئے ایک دن اُنہوں نے اِس بات پر سنجیدگی سے غور کِیا کہ وہ کس ڈگر چل
پڑے ہیں۔ گریگوریو نے کہا: ”ہم اپنی زندگی میں تبدیلی لانا چاہتے تھے مگر ہمیں یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہم کیا کریں۔ ہم نے آپس میں بات کی کہ ہم اپنی زندگی خدا کی خدمت کے لئے اَور زیادہ کیسے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ ہمارے تو بچے بھی نہیں ہیں جنہیں پالنے کی ذمےداری ہم پر ہو۔ لہٰذا اِس سلسلے میں ہم نے یہوواہ خدا سے رہنمائی مانگی۔“اُنہوں نے کچھ تقریریں سنیں جن میں مبشروں کی حوصلہافزائی کی گئی تھی کہ وہ اُن علاقوں میں جا کر مُنادی کرنے کے بارے میں سوچیں جہاں یہوواہ کے گواہ کم ہیں۔ گریگوریو نے کہا: ”اِن تقریروں کو سُن کو ہمیں لگا کہ یہوواہ خدا نے ہماری دُعاؤں کا جواب دے دیا ہے۔“ اُن دونوں نے یہوواہ خدا سے درخواست کی کہ وہ اُن کا ایمان اِتنا مضبوط کر دے کہ وہ صحیح فیصلہ کرنے کی ہمت جٹا سکیں۔ اُن کے راستے کی ایک بڑی رُکاوٹ وہ معاہدہ تھا جو اُنہوں نے گھر بنانے کے لئے کِیا تھا۔ وہ تین سال سے قسطیں بھر رہے تھے۔ ماریلو نے کہا: ”اگر ہم یہ معاہدہ توڑتے تو ہمارا وہ سارا پیسہ ڈوب جاتا جو ہم بھر چکے تھے۔ مگر اب ہمیں خدا کی خدمت اور اپنے خوابوں کے گھر میں سے کسی ایک کو چننا تھا۔“ اُنہوں نے پولسُ رسول کی طرح ’سب چیزوں کا نقصان اُٹھانا‘ پسند کِیا اور گھر کا معاہدہ توڑ دیا۔ اُنہوں نے اپنی نوکریاں چھوڑ دیں؛ اپنی بہت سی چیزیں بیچ ڈالیں اور اپنے گھر سے ۴۸۰ کلومیٹر (۳۰۰ میل) دُور ایک گاؤں میں چلے گئے جس کا نام پالاوان ہے۔—فل ۳:۸۔
”ہم نے سب حالتوں میں گزر بسر کرنا سیکھ لیا ہے“
پالاوان جانے سے پہلے ہی گریگوریو اور ماریلو نے اپنی زندگی کو سادہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ لیکن وہاں پہنچ کر اُنہوں نے جو کچھ دیکھا، اُس کا اُنہوں نے تصور بھی نہیں کِیا تھا۔ وہاں کا طرزِزندگی اُن کی سوچ سے بھی زیادہ سادہ تھا۔ ماریلو نے بتایا: ”یہاں پہنچ کر ہم تو ہکےبکے رہ گئے۔ نہ بجلی تھی اور نہ ہی کوئی اَور سہولت۔ پہلے ہمارے پاس کھانا پکانے کے لئے بجلی سے چلنے والا چولہا تھا۔ لیکن یہاں پر ہمیں لکڑیاں کاٹنی پڑتی تھیں اور پھر اِن سے آگ جلا کر کھانا پکانا پڑتا تھا۔ مجھے وہ بڑے بڑے بازار اور ہوٹل یاد آتے تھے جہاں ہم جایا کرتے تھے۔“ مگر گریگوریو اور ماریلو نے ہمیشہ اِس بات کو ذہن میں رکھا کہ وہ یہاں کس مقصد سے آئے ہیں۔ جلد ہی وہ دونوں پالاوان میں رہنے کے عادی ہو گئے۔ ماریلو نے بتایا: ”اب مَیں خوبصورت قدرتی مناظر کو دیکھ کر لطفاندوز ہوتی ہوں۔ مجھے رات کو ٹمٹماتے ہوئے ستاروں کو دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اُس وقت ہوتی ہے جب بادشاہت کا پیغام سُن کر لوگوں کے چہرے خوشی سے چمک اُٹھتے ہیں۔ یہاں پر خدمت کرنے سے ہم نے سب حالتوں میں گزر بسر کرنا سیکھ لیا ہے۔“—فل ۴:۱۲۔
”لوگوں کو خدا کی تنظیم میں آتے دیکھ کر جتنی خوشی ملتی ہے اُتنی کسی اَور چیز سے نہیں مل سکتی۔ اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کا واقعی کوئی مقصد ہے۔“—گریگوریو اور ماریلو
گریگوریو نے کہا: ”جب ہم آئے تھے تو یہاں صرف چار یہوواہ کے گواہ تھے۔ وہ بہنبھائی اِس بات سے بہت خوش تھے کہ مَیں ہر ہفتے عوامی تقریر پیش کرتا ہوں اور جب سب گیت گاتے ہیں تو مَیں ساتھ میں گٹار بجاتا ہوں۔“ گریگوریو اور ماریلو کے دیکھتے ہی دیکھتے یہ چھوٹا سا گروہ ایک سال کے اندر ایک کلیسیا بن گیا جس میں ۲۴ مبشر تھے۔ گریگوریو نے بتایا: ”اِن بہنبھائیوں سے ہمیں اِتنا پیار ملا ہے کہ مَیں اِسے لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔“ اِس گاؤں میں چھ سال خدمت کرنے کے بعد وہ دونوں اِس نتیجے پر پہنچے ہیں: ”لوگوں کو خدا کی تنظیم میں آتے دیکھ کر جتنی خوشی ملتی ہے اُتنی کسی اَور چیز سے نہیں مل سکتی۔ اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کا واقعی کوئی مقصد ہے۔“
”مَیں نے آزما کر دیکھ لیا ہے کہ یہوواہ بڑا مہربان ہے“
فلپائن میں تقریباً ۳۰۰۰ بھائی اور بہنیں ایسے علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں جہاں مبشر کم ہیں۔ اِن میں تقریباً ۵۰۰ غیرشادیشُدہ بہنیں ہیں۔ آئیں، اِن میں سے ایک بہن کے بارے میں بات کرتے ہیں جن کا نام کیرن ہے۔
کیرن کی عمر تقریباً ۲۵ سال ہے۔ وہ فلپائن کے صوبے کاگیان میں پلی بڑھی ہیں۔ جب وہ ابھی سکول میں ہی تھیں تو وہ اکثر مُنادی کے کام میں اَور زیادہ حصہ لینے کے بارے میں سوچا کرتی تھیں۔ اُنہوں نے بتایا: ”مَیں جانتی تھی کہ خاتمہ بہت قریب ہے اور ابھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن تک بادشاہت کی خوشخبری نہیں پہنچی۔ اِس لئے مَیں کسی ایسے علاقے میں جانا چاہتی تھی جہاں مبشر بہت تھوڑے ہیں تاکہ مَیں مُنادی کے کام میں اُن کا ہاتھ بٹا سکوں۔“ کیرن کے کچھ گھر والوں نے اُن پر دباؤ ڈالا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور مُنادی کرنے کے لئے کسی انجان علاقے میں نہ جائیں۔ لیکن کیرن نے اِس سلسلے میں یہوواہ خدا سے رہنمائی کی درخواست کی۔ اُنہوں نے ایسے بہنبھائیوں سے بھی بات کی جو دُوردراز علاقوں میں خدمت کر چکے تھے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ اپنے گھر سے ۶۴ کلومیٹر (۴۰ میل) دُور ایک علاقے میں منتقل ہو گئیں۔
کیرن ایک چھوٹی سی کلیسیا کی مدد کرنے گئیں۔ یہ کلیسیا فلپائن کے ساحل کے ساتھ واقع پہاڑی علاقے میں مُنادی کے کام کی دیکھبھال کرتی تھی۔ کیرن نے کہا: ”اپنے گھر سے نئی کلیسیا تک جانے کے لئے مجھے تین دن پیدل چلنا پڑا۔ اِس سفر کے دوران مجھے کئی پہاڑیاں چڑھنی اور اُترنی پڑیں۔ تیس بار تو دریاؤں کو پار کرنا پڑا۔“ اُنہوں نے یہ بھی بتایا: ”جن لوگوں کے ساتھ مَیں بائبل کا مطالعہ کرتی تھی، اُن میں سے بعض تک پہنچنے کے لئے مجھے چھ گھنٹے پیدل چلنا پڑتا تھا۔ مَیں اُن کے گھر پر ہی رات ٹھہرتی تھی اور اگلے دن چھ گھنٹے پھر چل کر اپنے گھر واپس آتی تھی۔“ اِتنی محنت کرنے کا کیرن کو کیا فائدہ ہوا؟ پہلے تو اُنہوں نے کہا کہ ”کبھیکبھار تو میری ٹانگیں درد سے چور ہو جاتی ہیں۔“ پھر وہ مسکرا کر بولیں: ”لیکن مَیں نے ۱۸ لوگوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کِیا ہے۔ اور مَیں نے آزما کر دیکھ لیا ہے کہ یہوواہ بڑا مہربان ہے۔“—زبور ۳۴:۸۔
”مَیں نے یہوواہ خدا پر پہلے سے زیادہ بھروسا کرنا سیکھا“
سکھی ایک غیرشادیشُدہ بہن ہیں جن کی عمر ۴۰ سال سے کچھ زیادہ ہے۔ اُن کے ماںباپ ملک بھارت سے ہیں۔ سکھی، امریکہ میں رہتی تھیں لیکن پھر وہ فلپائن منتقل ہو گئیں۔ اُنہوں نے یہ فیصلہ کیوں کِیا؟ سن ۲۰۱۱ء میں وہ حلقے کے ایک اِجتماع پر گئیں۔ اِس اِجتماع پر ایک میاںبیوی کا اِنٹرویو لیا گیا جنہوں نے بتایا کہ اُنہوں نے اپنی بہت ساری چیزیں بیچ دیں تاکہ وہ ملک میکسیکو منتقل ہو جائیں اور وہاں مُنادی کا کام کرنے میں ہاتھ بٹائیں۔ سکھی نے بتایا: ”اِس میاںبیوی کا اِنٹرویو سُن کر مجھے ایسے منصوبے بنانے کا خیال آیا جن کے بارے میں پہلے مَیں نے سوچا تک نہیں تھا۔“ جب سکھی کو پتہ چلا کہ فلپائن میں رہنے والے پنجابی لوگوں کو خوشخبری سنانے کے لئے مدد کی ضرورت ہے تو اُنہوں نے وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ کیا اُنہیں مشکلوں کا سامنا ہوا؟
سکھی نے کہا: ”مَیں یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہی تھی کہ کونسی چیز رکھوں اور کونسی بیچ دوں۔ مَیں ۱۳ سال سے اپنے گھر میں پُرآسائش زندگی گزار رہی تھی۔ لیکن فلپائن جانے سے پہلے مجھے عارضی طور پر اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنا پڑا۔ اِس گھر میں مجھے وہ سہولتیں میسر نہیں تھیں جن کی مَیں عادی تھی۔ اگرچہ مجھے کچھ مشکلوں کا سامنا ہو رہا تھا پھر بھی یہاں رہ کر مَیں نے سادہ زندگی گزارنا سیکھا۔“ فلپائن میں اُنہیں کن مشکلوں ملا ۳:۱۰) سکھی نے یہ بھی کہا: ”میرے لئے سب سے مشکل فیصلہ یہی تھا کہ مَیں فلپائن جاؤں یا نہ جاؤں۔ لیکن یہاں آ کر مَیں نے دیکھا ہے کہ یہوواہ خدا نے میری سب مشکلیں آسان کر دی ہیں۔“
کا سامنا ہوا؟ سکھی نے اپنی دو بڑی مشکلوں کے بارے میں بتایا کہ اُنہیں کیڑےمکوڑوں سے بہت ڈر لگتا ہے اور جہاں وہ رہ رہی تھیں، وہاں پر کیڑےمکوڑے عام تھے۔ اِس کے علاوہ اُنہیں اپنے گھر والوں کی بھی بہت یاد آتی تھی۔ سکھی نے کہا: ”اِن حالات میں مَیں نے یہوواہ خدا پر پہلے سے زیادہ بھروسا کرنا سیکھا۔“ اِس سے اُنہیں کیا فائدہ ہوا؟ اُنہوں نے بتایا: ”یہوواہ خدا نے کہا ہے کہ ’میرا اِمتحان کرو کہ مَیں تُم پر برکت برساتا ہوں کہ نہیں۔‘ مُنادی کے دوران جب کوئی عورت مجھ سے پوچھتی ہے کہ ”آپ دوبارہ کب آئیں گی؟ مجھے آپ سے اَور بھی بہت سی باتیں پوچھنی ہیں“ تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا میرے کام میں برکت ڈال رہا ہے۔ مجھے سچائی کے بھوکے اور پیاسے لوگوں کی مدد کرکے بہت خوشی اور اِطمینان ملتا ہے۔“ (”مَیں نے اپنے ڈر پر قابو پایا“
سائم شادیشُدہ ہیں اور اُن کی عمر ۴۰ سال کے لگبھگ ہے۔ وہ ایک اچھی تنخواہ والی نوکری کرنے کے لئے فلپائن چھوڑ کر مشرقِوسطیٰ کے ایک ملک میں چلے گئے۔ وہاں پر حلقے کے نگہبان نے اُن کی حوصلہافزائی کی کہ وہ یہوواہ خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں سب سے اہم مقام پر رکھیں۔ اِس کے علاوہ گورننگ باڈی کے ایک رُکن کی تقریر سُن کر بھی اُنہیں ایسی ہی حوصلہافزائی ملی۔ سائم نے کہا: ”جیسے ہی نوکری چھوڑنے کا خیال میرے ذہن میں آتا تھا، مَیں خوفزدہ ہو جاتا تھا۔“ پھر بھی اُنہوں نے نوکری چھوڑ دی اور فلپائن لوٹ گئے۔ اِس وقت سائم اور اُن کی بیوی ہیڈی، فلپائن کے ایک ایسے علاقے میں خدمت کر رہے ہیں جہاں پر مبشر تھوڑے ہیں اور کام بہت زیادہ ہے۔ سائم نے کہا: ”مجھے اِس بات کی خوشی ہے کہ مَیں نے اپنے ڈر پر قابو پایا اور اپنی نوکر کو یہوواہ خدا کی خدمت میں رُکاوٹ نہیں بننے دیا۔ واقعی اپنی زندگی میں یہوواہ خدا کی خدمت کو سب سے پہلا درجہ دینے سے ہمیں جو اِطمینان ملتا ہے، اُس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔“
”ہمیں بہت دلی سکون ملتا ہے“
رامیلو اور جولیٹ پہلکار ہیں اور اُن کی عمر ۳۰ سال سے کچھ زیادہ ہے۔ جب اُنہیں پتہ چلا کہ اُن کے گھر سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر (۲۰ میل) دُور ایک کلیسیا کو مُنادی کے کام میں مدد کی ضرورت ہے تو اُنہوں نے اِس کلیسیا کے ساتھ خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا۔ چاہے دھوپ ہو یا بارش، وہ اپنی موٹرسائیکل پر ہر ہفتے اِجلاسوں میں جاتے ہیں اور مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں۔ اِس سلسلے میں اُنہیں اِس کلیسیا کے کئی چکر لگانے پڑتے ہیں۔ اگرچہ اُنہیں اُونچے نیچے راستوں اور خطرناک پلوں سے گزرنا پڑتا ہے پھر بھی وہ خوش ہیں کہ وہ مُنادی کے کام کو فروغ دینے میں بہنبھائیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ رامیلو نے بتایا: ”ہم دونوں ۱۱ لوگوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ کسی دوسرے علاقے میں جا کر خدمت کرنے کے لئے ہمیں قربانیوں تو دینی پڑتی ہیں لیکن اِس سے ہمیں بہت دلی سکون ملتا ہے۔“—۱-کر ۱۵:۵۸۔
کیا آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کس علاقے میں مُنادی کے کام میں ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے، آپ کے اپنے ملک میں یا کسی اَور ملک میں؟ اِس صورت میں اپنے حلقے کے نگہبان سے بات کریں اور اگست ۲۰۱۱ء کی ہماری بادشاہتی خدمتگزاری میں مضمون ”پار اُتر کر مکدنیہ میں آئیں“ کو پڑھیں۔