لاویوں کی دُعا سے اہم باتیں سیکھیں
”تیرا جلالی نام مبارک ہو۔“ —نحم ۹:۵۔
۱. (الف) ہم بنیاِسرائیل کے کونسے اِجتماع کے بارے میں بات کریں گے؟ (ب) اِس اِجتماع کے متعلق ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
یہ ۴۵۵ قبلازمسیح کی بات ہے۔ یہودیوں کے ساتویں مہینے یعنی تشری کی ۲۴ تاریخ کو لاویوں نے یروشلیم میں جمع اِسرائیلیوں سے کہا: ”کھڑے ہو جاؤ اور کہو [یہوواہ] ہمارا خدا ازل سے ابد تک مبارک ہے۔“ (نحم ۹:۴، ۵) اِن الفاظ کو سنتے ہی اِسرائیلی، خدا سے دُعا مانگنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اِس موقعے پر لاویوں نے نہایت سوچبچار کرکے خدا سے دُعا کی۔ آئیں، اِس اِجتماع اور اِس سے پہلے ہونے والے واقعات پر غور کریں اور خود سے پوچھیں: ”لاوی باقاعدگی سے کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ اِجتماع کامیاب رہا؟ ہم لاویوں کی دُعا سے اَور کونسی اہم باتیں سیکھ سکتے ہیں؟“
ایک خاص مہینہ
۲. بنیاِسرائیل نے ہمارے لئے کیا مثال قائم کی؟
۲ اِس اِجتماع سے ایک مہینہ پہلے یہودیوں نے یروشلیم کی دیواریں مکمل کر لی تھیں۔ (نحم ۶:۱۵) اُنہوں نے یہ کام صرف ۵۲ دن میں کِیا تھا۔ پھر تشری کی پہلی تاریخ کو وہ ”پانی پھاٹک کے سامنے کے میدان میں“ جمع ہوئے اور عزرا اور دوسرے لاویوں نے اُنہیں خدا کی شریعت پڑھ کر سنائی اور اِس کی وضاحت کی۔ سب مردوں اور عورتوں کے علاوہ بچے ”جو سُن کر سمجھ سکتے تھے . . . صبح سے دوپہر تک“ کھڑے رہے اور شریعت کی باتیں سنتے رہے۔ اُن اِسرائیلیوں نے ہمارے لئے ایک اچھی مثال قائم کی۔ آجکل ہمارے پاس اچھی عبادتگاہیں ہیں جہاں ہم جمع ہوتے ہیں۔ پھر بھی کیا اِجلاس کے دوران ہمارا دھیان بھٹک جاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو بنیاِسرائیل کی مثال پر غور کریں جنہوں نے شریعت کی باتوں کو نہ صرف دھیان سے سنا بلکہ اُنہیں اپنے دل پر نقش بھی کِیا۔ اُنہیں احساس ہو گیا کہ اُنہوں نے خدا کی نافرمانی کی ہے اِس لئے وہ رونے لگے۔—نحم ۸:۱-۹۔
۳. بنیاِسرائیل نے کس ہدایت پر عمل کِیا؟
۳ یہ موقع رونے اور اپنے گُناہوں کا اِقرار کرنے کا نہیں تھا۔ اِس کی بجائے یہ عید کا دن تھا اِس لئے یہ خوشی سے یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کا موقع تھا۔ (گن ۲۹:۱) لہٰذا نحمیاہ نے لوگوں سے کہا: ”اب جاؤ اور جو موٹا ہے کھاؤ اور جو میٹھا ہے پیو اور جن کے لئے کچھ تیار نہیں ہوا اُن کے پاس بھی بھیجو کیونکہ آج کا دن ہمارے خداوند کے لئے مُقدس ہے اور تُم اُداس مت ہو کیونکہ [یہوواہ] کی شادمانی تمہاری پناہگاہ ہے۔“ لوگوں نے لاویوں کی بات مانی اور وہ دن اُن کے لئے ”بڑی خوشی“ کا دن ثابت کا ہوا۔—نحم ۸:۱۰-۱۲۔
۴. (الف) بارہ قبیلوں کے سرداروں نے کیا کِیا؟ (ب) بنیاِسرائیل نے جو عید منائی، اُس کے بارے میں سرداروں کو کونسی خاص بات معلوم ہوئی؟
۴ اگلے ہی دن اِسرائیل کے ۱۲ قبیلوں کے سردار اِس بات پر غور کرنے کے لئے جمع ہوئے کہ ساری قوم خدا کی شریعت پر پوری طرح کیسے عمل کر سکتی ہے۔ شریعت پر غور کرنے سے اُنہیں معلوم ہوا کہ تشری کی ۱۵ سے ۲۲ تاریخ تک عیدِخیام منائی جانی چاہئے اور عید کے آخری دن ایک خاص اِجتماع ہونا چاہئے۔ لہٰذا وہ عید منانے کی تیاریاں کرنے لگے۔ بنیاِسرائیل نے یہ عید بڑے ہی جوشوخروش سے منائی۔ یشوع کے زمانے کے بعد سے عیدِخیام اِتنے جوش سے نہیں منائی گئی تھی۔ سرداروں کو ایک اَور بات معلوم ہوئی کہ ہر سات سال بعد جو عیدِخیام آتی ہے، اُس پر شریعت کی پڑھائی کی جانی چاہئے۔ اور جو عید اُنہوں نے منائی، وہ ایسی ہی عید تھی۔ لہٰذا اِس عید کے ”پہلے دن سے آخری دن تک“ ہر روز شریعت پڑھی گئی۔—نحم ۸:۱۳-۱۸۔
گُناہوں کے اِقرار کا دن
۵. لاویوں کے دُعا کرنے سے پہلے بنیاِسرائیل نے کیا کِیا؟
۵ عید کی خوشیاں منانے کے بعد اب مناسب تھا کہ لوگ اپنے گُناہوں کا اِقرار کریں۔ لہٰذا عید کے دو دن بعد لوگوں نے مل کر روزہ رکھا اور ٹاٹ اوڑھا جو اِس بات کا اِظہار تھا کہ وہ اپنے گُناہوں پر بہت شرمندہ ہیں۔ اِس دن پر بھی صبح تین گھنٹے تک خدا کی شریعت کو پڑھا گیا۔ دوپہر کے وقت اُنہوں نے اپنے گُناہوں کا ’اِقرار کِیا اور اپنے خدا یہوواہ کو سجدہ کِیا۔‘ اِس کے بعد لاویوں نے لوگوں کی طرف سے خدا کے حضور دُعا کی۔ —نحم ۹:۱-۴۔
۶. (الف) لاویوں کی دُعا اِتنی پُرمعنی کیوں تھی؟ (ب) ہم لاویوں کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟
۶ لاویوں کی دُعا اِتنی پُرمعنی کیوں تھی؟ اِس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ خدا کی شریعت کو باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ آئیں، ہم لاویوں کی اِس دُعا پر غور کریں جو نحمیاہ نو باب میں درج ہے۔ اِس کی ۶ سے ۱۵ آیتوں میں لاویوں نے یہوواہ خدا کے حیرتانگیز کاموں اور اُس کی صفتوں کو سراہا۔ باقی کی دُعا میں اُنہوں نے خدا کی ”گوناگون رحمتوں“ کا ذکر کِیا اور اِس کے ساتھ ہی ساتھ یہ اِعتراف کِیا کہ بنیاِسرائیل اِن رحمتوں کے لائق نہیں ہیں۔ (نحم ۹:۱۹، ۲۷، ۲۸، ۳۱) ہم لاویوں کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ہمیں بھی خدا کے کلام کو ہر روز پڑھنا چاہئے اور اِس پر سوچبچار کرنا چاہئے۔ یوں ہم یہوواہ خدا کی بات سنتے ہیں۔ پاک کلام سے ہمیں بہت سی ایسی باتیں مل جاتی ہیں جن کے بارے میں ہم خدا سے بات کر سکتے ہیں۔ اِس لئے جب ہم دُعا کرتے ہیں تو ہمارے پاس موضوعات کی کمی نہیں ہوتی اور ہم زیادہ پُرمعنی دُعائیں کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔—زبور ۱:۱، ۲۔
۷. لاویوں نے خدا سے کیا مانگا؟ اور اُنہوں نے ہمارے لئے کیا مثال قائم کی؟
نحم ۹:۳۲) لاویوں نے ہمارے لئے بہت ہی اچھی مثال قائم کی۔ ہمیں بھی خدا سے اپنے لئے کچھ مانگنے سے پہلے اُس کی حمد کرنی چاہئے اور اُس کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
۷ اِس دُعا میں لاویوں نے صرف ایک چیز مانگی۔ اُنہوں خدا کی حمد اور شکر کرنے کے بعد کہا: ”سو اب اَے ہمارے خدا بزرگ اور قادِرومہیب خدا جو عہدورحمت کو قائم رکھتا ہے وہ دُکھ جو ہم پر اور ہمارے بادشاہوں اور ہمارے سرداروں اور ہمارے کاہنوں پر اور ہمارے نبیوں اور ہمارے باپدادا پر اور تیرے سب لوگوں پر اؔسُور کے بادشاہوں کے زمانہ سے آج تک پڑا ہے سو تیرے حضور ہلکا نہ معلوم ہو۔“ (خدا کے جلالی نام کی بڑائی ہو
۸، ۹. (الف) لاویوں نے دُعا کرنے سے پہلے خاکساری کیسے ظاہر کی؟ (ب) لاویوں نے اپنی دُعا میں کونسے دو لشکروں کا ذکر کِیا؟
۸ لاوی بڑے خاکسار تھے۔ اگرچہ اُنہوں نے بہت سوچبچار کرکے دُعا کی تھی پھر بھی اُنہیں احساس تھا کہ صرف اُن کی دُعا یہوواہ جیسی عالیشان ہستی کی حمدوتعریف کے لئے کافی نہیں ہوگی۔ اِس لئے اُنہوں نے دُعا کرنے سے پہلے باقی اِسرائیلیوں کو بھی یہ ہدایت کی: ”کہو [یہوواہ] ہمارا خدا ازل سے ابد تک مبارک ہے تیرا جلالی نام مبارک ہو جو سب حمدوتعریف سے بالا ہے۔“—نحم ۹:۵۔
۹ پھر اُنہوں نے دُعا میں کہا: ”تُو ہی اکیلا [یہوواہ] ہے۔ تُو نے آسمان اور آسمانوں کے آسمان کو اور اُن کے سارے لشکر کو اور زمین کو اور جو کچھ اُس پر ہے اور سمندروں کو اور جو کچھ اُن میں ہے بنایا اور تو اُن سبھوں کا پروردگار ہے اور آسمان کا لشکر تجھے سجدہ کرتا ہے۔“ (نحم ۹:۶) اِس آیت میں لاویوں نے یہوواہ خدا کی تخلیق کا ذکر کِیا۔ اُنہوں نے کہا کہ خدا نے ’آسمان کو اور اُس کے سارے لشکر کو‘ یعنی بےشمار کہکشاوں اور ستاروں کو بنایا ہے۔ اِس کے علاوہ اُس نے زمین پر ایسے حیرتانگیز نظام قائم کئے ہیں جن سے زندگی قائم رہتی ہے۔ اُس نے طرحطرح کے جاندار بنائے اور اُنہیں اپنی نسل بڑھانے کی صلاحیت عطا کی۔ لاویوں نے دُعا میں ایک اَور طرح کے لشکر کا بھی ذکر کِیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ”آسمان کا لشکر“ یعنی فرشتے، خدا کو سجدہ کرتے ہیں۔ (۱-سلا ۲۲:۱۹؛ ایو ۳۸:۴، ۷) یہ فرشتے بڑی خاکساری سے خدا کی مرضی بجا لاتے ہوئے گنہگار اِنسانوں کی خدمت کرتے ہیں۔ (عبر ۱:۱۴) آجکل ہم بھی ایک منظم فوج کی طرح یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہمیں فرشتوں کی طرح خاکساری سے یہوواہ خدا کی خدمت کرنی چاہئے۔—۱-کر ۱۴:۳۳، ۴۰۔
۱۰. خدا نے ابرہام کے لئے جو کچھ کِیا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
۱۰ اِس کے بعد لاویوں نے اِس بات کا ذکر کِیا کہ خدا نے ابرام کے لئے کیا کچھ کِیا تھا۔ ابرام کی عمر ۹۹ سال ہو گئی تھی مگر اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی کیونکہ اُن کی بیوی ساری بانجھ تھیں۔ اُس وقت یہوواہ خدا نے اُن کا نام بدل کر ابرہام رکھا جس کا مطلب ہے ”قوموں کا باپ۔“ (پید ۱۷:۱-۶، ۱۵، ۱۶) خدا نے ابرہام سے یہ وعدہ بھی کِیا کہ اُن کی اولاد ملک کنعان کی وارث بنے گی۔ لاویوں نے اپنی دُعا میں ظاہر کِیا کہ خدا نے اپنا یہ وعدہ کیسے نبھایا۔ اُنہوں نے کہا: ”تُو وہ [یہوواہ] خدا ہے جس نے اؔبرام کو چن لیا اور اُسے کسدیوں کے اُؔور سے نکال لایا اور اُس کا نام اؔبرہام رکھا۔ تُو نے اُس کا دل اپنے حضور وفادار پایا اور کنعانیوں . . . کا ملک دینے کا عہد اُس سے باندھا تاکہ اُسے اُس کی نسل کو دے اور تُو نے اپنے سخن پورے کئے کیونکہ تُو صادق ہے۔“ (نحم ۹:۷، ۸) اِنسان اکثر اپنے وعدے کا پاس نہیں رکھتے مگر یہوواہ خدا اپنا وعدہ کبھی نہیں بھولتا۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے خدا یہوواہ کی مثال پر عمل کرنا چاہئے اور اپنے وعدے پورے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔—متی ۵:۳۷۔
یہوواہ خدا کے قابلِتعریف کام
۱۱، ۱۲. (الف) یہوواہ کے نام کا مطلب کیا ہے؟ اور اِس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ (ب) یہوواہ خدا نے ابرہام کی اولاد کی خاطر جو کچھ کِیا، اُس سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے نام کے مطلب پر پورا اُترتا ہے؟
۱۱ یہوواہ کے نام کا مطلب ہے: ”وہ جیسا چاہتا ہے ویسا ہی کرتا ہے۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا ہر وہ کام کرتا ہے جو اُس کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ آئیں، ہم اِس کی ایک عمدہ مثال پر غور کریں۔ ابرہام کی اولاد مصر میں غلام تھی۔ یہوواہ خدا نے ابرہام سے وعدہ کِیا تھا کہ وہ اُن کی اولاد کو ملک کنعان میں لے جائے گا۔ لیکن اُس وقت بنیاِسرائیل کی آزادی بالکل ناممکن دِکھائی دے رہی تھی۔ لیکن یہوواہ خدا نے اُنہیں چھڑانے کے لئے مختلف حیرتانگیز کام انجام دئے اور یوں اپنے وعدے کو پورا کِیا۔ اِس طرح یہ ثابت ہو گیا کہ ایسا عظیم نام صرف اُسی کو جچتا ہے۔
۱۲ لاویوں نے اپنی دُعا میں اُن کاموں کا ذکر کِیا جو یہوواہ خدا نے اپنے بندوں کی خاطر کئے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”تُو نے مصر میں ہمارے باپدادا کی مصیبت پر نظر کی اور بحرقلزؔم کے کنارے اُن کی فریاد سنی۔ اور فرعون اور اُس کے سب نوکروں اور اُس کے ملک کی سب رعیت پر نشان اور عجائب کر دِکھائے کیونکہ تُو جانتا تھا کہ وہ غرور کے ساتھ اُن سے پیش آئے سو تیرا بڑا نام ہوا جیسا آج ہے۔ اور تُو نے اُن کے آگے سمندر کو دو حصے کِیا ایسا کہ وہ سمندر کے بیچ سُوکھی زمین پر ہو کر چلے اور تُو نے اُن کا پیچھا کرنے والوں کو گہراؤ میں ڈالا جیسا پتھر سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔“ پھر لاویوں نے یہ بھی کہا کہ ”تُو نے اُن کے آگے اِس ملک کے باشندوں یعنی کنعانیوں کو مغلوب کِیا۔ . . . سو اُنہوں نے فصیلدار شہروں اور زرخیز ملک کو لے لیا اور وہ سب طرح کے اچھے مال سے بھرے ہوئے گھروں اور کھودے ہوئے کوؤں اور بہت سے انگورستانوں اور زیتون کے باغوں اور پھلدار درختوں کے مالک ہوئے۔ پھر وہ کھا کر سیر ہوئے اور موٹے تازہ ہو گئے اور تیرے بڑے احسان سے نہایت حظ اُٹھایا۔“—نحم ۹:۹-۱۱، ۲۴، ۲۵۔
۱۳. یہوواہ خدا نے بنیاِسرائیل کو غلامی سے چھڑانے کے بعد کیا کِیا؟ مگر لوگوں نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟
۱۳ یہوواہ خدا نے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اَور بھی بہت سے حیرتانگیز کام کئے۔ مثال کے طور پر بنیاِسرائیل کو مصر سے چھڑانے کے بعد اُس نے اُنہیں سکھایا کہ وہ اُس کی عبادت کیسے کریں۔ اِس لئے اُس نے اُنہیں اپنی شریعت دی۔ لاویوں نے اپنی دُعا میں کہا کہ یہوواہ خدا ”کوہِسیناؔ پر اُتر آیا اور [اُس] نے آسمان پر سے اُن کے ساتھ باتیں کیں اور راست احکام اور سچے قانون اور اچھے آئینوفرمان اُن کو دئے۔“ (نحم ۹:۱۳) یہوواہ خدا نے بنیاِسرائیل کو شریعت اِس لئے دی تھی کیونکہ اُس نے اُنہیں اپنی خاص قوم بنا لیا تھا اور وہ کنعان میں داخل ہونے والے تھے۔ اور یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ اِسرائیل کے چالچلن سے اُس کے نام کی بڑائی ہو۔ مگر اِسرائیلی جلد ہی خدا کی نافرمانی کرنے پر اُتر آئے۔—نحمیاہ ۹:۱۶-۱۸ کو پڑھیں۔
اِصلاح قبول کرنے کی اہمیت
۱۴، ۱۵. (الف) اگرچہ بنیاِسرائیل نے باربار خدا کی نافرمانی کی تو بھی وہ اُن کے ساتھ رحم سے کیسے پیش آیا؟ (ب) یہوواہ خدا نے جس طرح بنیاِسرائیل کا خیال رکھا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
۱۴ بنیاِسرائیل نے کوہِسینا کے دامن میں خدا کے تمام حکم ماننے کا وعدہ کِیا تھا۔ مگر اِس کے تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے خدا کی نافرمانی کی۔ لاویوں نے اپنی دُعا میں اُن کے دو ایسے گُناہوں کا ذکر کِیا جن کی وجہ سے اُنہیں موت کی سزا ملنی چاہئے تھی۔ لیکن یہوواہ خدا نے اُن پر رحم کِیا۔ اِس لئے لاویوں نے کہا: ”تُو نے نحم ۹:۱۹، ۲۱) آجکل بھی یہوواہ خدا ہر لحاظ سے ہمارا خیال رکھتا ہے تاکہ ہم وفاداری سے اُس کی خدمت کر سکیں۔ ہم اُن ہزاروں اِسرائیلیوں کی طرح نہیں بننا چاہتے جو ایمان کی کمی اور نافرمانی کی وجہ سے بیابان میں فنا ہو گئے۔ دراصل اُن پر جو کچھ بیتا، وہ ’ہم آخری زمانہ والوں کی عبرت کے واسطے‘ پاک کلام میں لکھا گیا ہے۔—۱-کر ۱۰:۱-۱۱۔
اپنی گوناگون رحمتوں سے اُن کو بیابان میں چھوڑ نہ دیا۔ . . . چالیس برس تک تُو . . . اُن کی پرورش کرتا رہا۔ وہ کسی چیز کے محتاج نہ ہوئے۔ نہ تو اُن کے کپڑے پُرانے ہوئے اور نہ اُن کے پاؤں سوجے۔“ (۱۵ افسوس کی بات ہے کہ ملک کنعان میں داخل ہونے کے بعد بنیاِسرائیل، کنعانی دیوتاؤں کی پوجا کرنے لگے۔ اِن دیوتاؤں کی پوجا کے دوران بہت سی گندی حرکتیں کی جاتی تھیں، یہاں تک کہ بچوں کی قربانیاں بھی چڑھائی جاتی تھیں۔ جھوٹے دیوتاؤں کی پوجا کرنے کی وجہ سے یہوواہ خدا نے بنیاِسرائیل کو اُن کے دُشمنوں کے حوالے کر دیا۔ لیکن جب بنیاِسرائیل نے اپنے گُناہوں سے توبہ کی تو خدا نے اُنہیں بخش دیا اور اُنہیں اُن کے دُشمنوں سے بچایا۔ ایسا ”باربار“ ہوتا رہا۔ (نحمیاہ ۹:۲۶-۲۸، ۳۱ کو پڑھیں۔) لہٰذا لاویوں نے یہ تسلیم کِیا: ”تُو بہت برسوں تک اُن کی برداشت کرتا رہا اور اپنی روح سے اپنے نبیوں کی معرفت اُن کے خلاف گواہی دیتا رہا تو بھی اُنہوں نے کان نہ لگایا اِس لئے تُو نے اُن کو اَور ملکوں کے لوگوں کے ہاتھ میں کر دیا۔“—نحم ۹:۳۰۔
۱۶، ۱۷. (الف) جب اِسرائیلی پھر سے یہوواہ خدا کی نافرمانی کرنے لگے تو اِس کا انجام کیا ہوا؟ (ب) بنیاِسرائیل نے کیا اِعتراف کِیا؟ اور کیا کرنے کا وعدہ کِیا؟
۱۶ ملک بابل کی اسیری سے اپنے وطن آنے کے بعد اِسرائیلی پھر سے یہوواہ خدا کی نافرمانی کرنے لگے۔ اِس کا نتیجہ کیا نکلا؟ لاویوں نے دُعا میں کہا: ”دیکھ آج ہم غلام ہیں بلکہ اُسی ملک میں جو تُو نے ہمارے باپدادا کو دیا کہ اُس کا پھل اور پیداوار کھائیں سو دیکھ ہم اُسی میں غلام ہیں۔ وہ اپنی کثیر پیداوار اُن بادشاہوں کو دیتا ہے جن کو تُو نے ہمارے گُناہوں کے سبب سے ہم پر مسلّط کِیا ہے . . . اور ہم سخت مصیبت میں ہیں۔“—نحم ۹:۳۶، ۳۷۔
۱۷ کیا لاوی خدا سے یہ شکایت کر رہے تھے کہ وہ اُن کے ساتھ نااِنصافی کر رہا ہے؟ جینہیں۔ اُنہوں نے اِعتراف کِیا: ”جو کچھ ہم پر آیا ہے اُس سب میں تُو عادل ہے کیونکہ تُو سچائی سے پیش آیا پر ہم نے شرارت کی۔“ (نحم ۹:۳۳) پھر اُنہوں نے اپنی دُعا کے آخر میں خدا سے تہِدل سے وعدہ کِیا کہ اب سے پوری قوم خدا کے قوانین کی پابندی کرے گی۔ (نحمیاہ ۹:۳۸ کو پڑھیں؛ نحم ۱۰:۲۹) اُنہوں نے اِس وعدے کو تحریری شکل دی جس پر ۸۴ اُمرا نے مہر کی۔—نحم ۱۰:۱-۲۷۔
۱۸، ۱۹. (الف) نئی دُنیا میں جانے کے لئے ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے؟ (ب) ہمیں کیا دُعا کرتے رہنا چاہئے اور کیوں؟
۱۸ نئی دُنیا میں جانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یہوواہ خدا کی طرف سے اِصلاح کو قبول کریں۔ پولسُ رسول نے کہا: ”وہ کونسا بیٹا ہے جسے باپ تنبیہ نہیں کرتا؟“ (عبر ۱۲:۷) اگر ہم یہوواہ خدا کی طرف سے اِصلاح کو قبول کرتے ہیں اور اُس کے وفادار رہتے ہیں تو ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اُس سے تربیت پانا چاہتے ہیں۔ اور اگر ہم کوئی گُناہ کر بیٹھتے ہیں تو ہمیں یقین ہوتا ہے کہ جب ہم توبہ کریں گے اور اِصلاح کو قبول کریں گے تو وہ ہمیں معاف کر دے گا۔
۱۹ ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہوواہ خدا نے اِسرائیلیوں کو مصر سے چھڑانے کے لئے بڑے حیرتانگیز کام کئے تھے۔ لیکن جلد ہی وہ اِن سے بھی بڑے کارنامے کرے گا۔ پھر سب جان جائیں گے کہ یہوواہ کتنا عظیم خدا ہے۔ (حز ۳۸:۲۳) جس طرح اُس نے ملک کنعان اپنے لوگوں کو میراث میں دیا تھا ویسے ہی وہ تمام وفادار مسیحیوں کو نئی دُنیا میراث میں بخشے گا۔ (۲-پطر ۳:۱۳) جب ایسا شاندار وقت آنے والا ہے تو پھر ہمیں یہ دُعا کرتے رہنا چاہئے کہ خدا کے عظیم نام کی بڑائی ہو۔ اگلے مضمون میں ہم یسوع مسیح کی ایک دُعا پر غور کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ ہم اِس دُعا میں کہی گئی باتوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔