کیا آپ بادشاہت کی خاطر قربانیاں دیں گے؟
”خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے۔“—۲-کر ۹:۷۔
۱. بہت سے لوگ کس طرح کی قربانیاں دیتے ہیں؟ اور کیوں؟
اِنسان کی نظر میں جو چیزیں اہم ہوتی ہیں، وہ اُن کی خاطر کچھ بھی قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ والدین کے لئے اُن کے بچے بہت اہم ہوتے ہیں اِس لئے وہ اپنے بچوں کی خاطر اپنے وقت اور پیسے کی پرواہ نہیں کرتے۔ ایسے جوان کھلاڑی جو اپنے ملک کی طرف سے اولمپکس کھیلوں میں شرکت کرنا چاہتے ہیں، وہ کڑی ورزش اور مشق کرنے میں بہت وقت لگاتے ہیں جبکہ اُن کے یاردوست موجمستی کرتے ہیں۔ یسوع مسیح نے بھی اُن چیزوں کے لئے بہت سی قربانیاں دیں جو اُن کی نظر میں اہم تھیں۔ اُنہوں نے اپنے وقت اور قوت کو خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرنے میں اِستعمال کِیا۔ اُنہوں نے اولاد پیدا کرنے اور عیشوآرام کی زندگی گزارنے کا اِنتخاب نہیں کِیا۔ (متی ۴:۱۷؛ لو ۹:۵۸) اُن کے پیروکاروں کی نظر میں بھی خدا کی بادشاہت بہت اہم تھی۔ اِس لئے اُنہوں نے بھی اِس کی خاطر بہت سی قربانیاں دیں۔ (متی ۴:۱۸-۲۲؛ ۱۹:۲۷) لہٰذا ہمیں بھی خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”میری زندگی میں کونسی چیز زیادہ اہم ہے؟“
۲. (الف) سچے مسیحیوں کے لئے کونسی قربانیاں دینا لازمی ہے؟ (ب) ہمارے بعض بہنبھائی اَور کونسی قربانیاں دیتے ہیں؟
۲ سچے مسیحیوں کے لئے کچھ قربانیاں دینا لازمی ہے تاکہ وہ خدا کی قربت میں رہ سکیں۔ مثال کے طور پر وہ دُعا کرنے، بائبل پڑھنے، خاندانی عبادت کرنے، اِجلاسوں میں جانے اور مُنادی میں حصہ لینے کے لئے اپنا بہت سا وقت قربان کرتے ہیں اور اپنی قوت کو بھرپور اِستعمال کرتے ہیں۔ * (یشو ۱:۸؛ متی ۲۸:۱۹، ۲۰؛ عبر ۱۰:۲۴، ۲۵) ہماری کوششوں اور یہوواہ خدا کی برکت کی وجہ سے مُنادی کا کام دنبہدن ترقی کر رہا ہے اور بہت سے لوگ ’یہوواہ کے گھر کے پہاڑ‘ کی طرف آ رہے ہیں۔ (یسع ۲:۲) بعض بہنبھائی مُنادی کے کام کو فروغ دینے کے لئے اَور بھی بہت سی قربانیاں دیتے ہیں۔ مثلاً بعض بہنبھائی بیتایل میں خدمت کرتے ہیں، بعض ہماری عبادتگاہیں بنانے میں ہاتھ بٹاتے ہیں، بعض اِجتماعات کا اِنتظام کرنے میں مدد کرتے ہیں جبکہ کچھ قدرتی آفتوں سے متاثر ہونے والے بہنبھائیوں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ سب کام ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے لئے شرط تو نہیں ہیں مگر مُنادی کے کام کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہیں۔
۳. (الف) بادشاہت کی خاطر قربانیاں دینے سے ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟ (ب) ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟
۳ مُنادی کے کام کو فروغ دینا اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے بہت سے بہنبھائی یہوواہ خدا کی خدمت کی خاطر پوری رضامندی سے قربانیاں دے رہے ہیں۔ (زبور ۵۴:۶ کو پڑھیں۔) اگر ہم بھی ایسا کریں گے تو ہمیں خوشی حاصل ہوگی۔ (است ۱۶:۱۵؛ اعما ۲۰:۳۵) ہم سب کو اپنا جائزہ لینا چاہئے اور خود سے پوچھنا چاہئے: ”مَیں اپنے وقت، پیسے، قوت اور صلاحیتوں کو کیسے اِستعمال کر رہا ہوں؟ کیا مَیں خدا کی بادشاہت کی خاطر اَور زیادہ قربانیاں دے سکتا ہوں؟ اِس سلسلے میں مجھے کیا احتیاط برتنی چاہئے؟“ آئیں، ہم بنیاِسرائیل کی مثال پر غور کریں جو ’رضا کی قربانیاں‘ بھی چڑھاتے تھے یعنی کچھ قربانیاں تحفے کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ہم دیکھیں گے کہ ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ تحفے کے طور پر قربانیاں دینے سے کتنی خوشی ملتی ہے۔
بنیاِسرائیل کے زمانے میں قربانیاں
۴. خدا کے حضور قربانیاں پیش کرنے سے بنیاِسرائیل کو کیا فائدہ ہوا؟
۴ بنیاِسرائیل اپنے گُناہوں کی معافی کے لئے خدا کے حضور قربانیاں پیش کرتے تھے۔ قربانیاں چڑھانے سے اُنہیں یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی تھی۔ اِن میں سے کچھ قربانیاں دینے کا حکم دیا گیا تھا جبکہ کچھ ’رضا کی قربانیاں‘ تھیں۔ (احبا ۲۳:۳۷، ۳۸) مثال کے طور پر سوختنی قربانیاں تحفے کے طور پر دی جا سکتی تھیں۔ قربانیاں پیش کرنے کی ایک شاندار مثال ہیکل کی مخصوصیت کے موقعے پر دیکھنے میں آئی۔—۲-توا ۷:۴-۶۔
۵. یہوواہ خدا نے غریب لوگوں کے لئے شریعت میں کیا گنجائش رکھی تھی؟
۵ یہوواہ خدا کو معلوم تھا کہ سب اِسرائیلی ایک جیسی قربانی نہیں دے سکتے۔ موسیٰ کی شریعت کے مطابق گُناہوں کا کفارہ جانوروں کے خون سے ہی ہو سکتا تھا۔ جانوروں کی قربانیاں اُن ”اچھی چیزوں کا عکس“ تھیں جو یہوواہ خدا اپنے بیٹے یسوع مسیح کے ذریعے لانے والا تھا۔ (عبر ۱۰:۱-۴) یہوواہ خدا نے شریعت میں یہ گنجائش رکھی تھی کہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق قربانی دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص بھیڑ یا بکرے کی قربانی نہیں دے سکتا تھا تو وہ ’قمریوں یا کبوتروں‘ کو قربان کر سکتا تھا۔ اِس طرح غریب لوگ بھی دل کی خوشی سے یہوواہ کے حضور قربانیاں دے سکتے تھے۔ (احبا ۱:۳، ۱۰، ۱۴؛ ۵:۷) اگرچہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق فرقفرق جانور قربان کر سکتا تھا، پھر بھی اُسے دو شرطیں پوری کرنی پڑتی تھیں تاکہ یہوواہ خدا اُس کی قربانی قبول کر لے۔
۶. (الف) قربانی دینے والوں کو کونسی دو شرطیں پوری کرنی پڑتی تھیں؟ (ب) اِن شرطوں کو پورا کرنا اِتنا اہم کیوں تھا؟
احبا ۲۲:۱۸-۲۰) اگر جانور میں کسی طرح کا عیب ہوتا تو یہوواہ خدا اُسے قبول نہیں کرتا تھا۔ دوسری شرط یہ تھی کہ قربانی دینے والا شخص یہوواہ خدا کی نظر میں پاک ہو۔ اگر ایک شخص کسی لحاظ سے ناپاک ہوتا تو اُسے خطا کی قربانی یا جُرم کی قربانی دینی پڑتی تھی تاکہ وہ خدا کی نظر میں پاک ہو جائے اور پھر اپنی رضا کی قربانی چڑھا سکے۔ (احبا ۵:۵، ۶، ۱۵) یہ بہت سنجیدہ بات تھی۔ رضا کی قربانی سلامتی کے ذبیحوں میں شامل تھی اور خدا کا حکم تھا کہ اگر ایک شخص ناپاکی کی حالت میں سلامتی کے ذبیحے کا گوشت کھائے تو اُسے ہلاک کر دیا جائے۔ (احبا ۷:۲۰، ۲۱) لیکن جب ایک شخص یہوواہ خدا کی نظر میں پاک ہوتا تھا اور اُس کی قربانی بھی بےعیب ہوتی تھی تو وہ صاف ضمیر اور خوشی کے ساتھ قربانی پیش کر سکتا تھا۔—۱-تواریخ ۲۹:۹ کو پڑھیں۔
۶ پہلی شرط یہ تھی کہ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق اچھی سے اچھی قربانی پیش کرے۔ یہوواہ خدا نے حکم دیا تھا کہ قربانی بےعیب ہونی چاہئے تاکہ وہ اُس کے حضور ”مقبول“ ہو۔ (ہم خدا کے لئے کیا قربان کر سکتے ہیں؟
۷، ۸. (الف) ہمارے بہت سے بہنبھائیوں کو بادشاہت کی خاطر قربانیاں دینے سے خوشی کیوں ملتی ہے؟ (ب) خدا نے ہمیں کن اثاثوں کا نگران ٹھہرایا ہے؟
۷ آجکل بھی یہوواہ خدا کے بہت سے بندے اُس کی خدمت کی خاطر جانتوڑ محنت کرتے ہیں اور خدا یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ جب ہم بادشاہت کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں تو اِس سے ہمارے بہنبھائیوں کو فائدہ ہوتا ہے اور ہمیں بھی خوشی ملتی ہے۔ اِس سلسلے میں ایک بھائی کی مثال پر غور کریں۔ وہ ہماری عبادتگاہیں بنانے اور قدرتی آفتوں سے متاثر ہونے والے بہنبھائیوں کی مدد کرنے میں حصہ لیتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ بہنبھائیوں کی خدمت کرکے جو خوشی ملتی ہے، اُسے لفظوں میں بیان نہیں کِیا جا سکتا۔ اُس نے بتایا: ”جب بہنبھائی اپنی نئی عبادتگاہ میں آتے ہیں یا پھر جب ہم کسی قدرتی آفت کے بعد اِمداد لے کر اپنے بہنبھائیوں کے پاس جاتے ہیں تو خوشی اور شکرگزاری اُن کے چہروں پر صاف نظر آتی ہے۔ اُن کے چہروں کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ مجھے میری محنت کا صلہ مل گیا۔“
۸ یہوواہ خدا کی تنظیم شروع سے ہی مُنادی کے کام کو فروغ دینے کے لئے مختلف طریقے اِستعمال کر رہی ہے۔ سن ۱۹۰۴ء میں بھائی چارلس ٹیز رسل نے لکھا: ”یہوواہ خدا نے اپنے ہر بندے کو اُس کے وقت، مال اور دیگر اثاثوں کا نگران ٹھہرایا ہے۔ ہم سب کی ذمےداری ہے کہ ہم اپنے اثاثوں کو یہوواہ خدا کے جلال کے لئے اِستعمال کریں۔“ یہ سچ ہے کہ ہمیں یہوواہ خدا کی خدمت کی خاطر قربانیاں دینے سے بڑی برکتیں ملتی ہیں۔ لیکن کوئی بھی قربانی قیمت کے بغیر ادا نہیں کی جا سکتی۔ (۲-سمو ۲۴:۲۱-۲۴) لہٰذا سوچیں کہ ”مَیں اپنے اثاثوں کو بہتر طور پر کیسے اِستعمال کر سکتا ہوں؟“
۹. ہم کس اصول پر عمل کرنے سے اپنے وقت کو دانشمندی سے اِستعمال کر سکتے ہیں؟
لو ۱۰:۲-۴) اِس سلسلے میں ایک عالم نے کہا کہ یسوع مسیح کے زمانے میں جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے تھے تو ”وہ صرف ایک بار نہیں جھکتے تھے اور ایک بار ہی ہاتھ نہیں ملاتے تھے بلکہ وہ کئی بار گلے ملتے تھے اور کئی بار زمین تک جھکتے تھے۔ اِس میں بہت سارا وقت لگ جاتا تھا۔“ یسوع مسیح یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ اُن کے شاگرد دوسروں کو نظرانداز کریں۔ اِس کی بجائے وہ اِس بات پر زور دے رہے تھے کہ وقت بہت کم ہے اور اُن کے شاگردوں کو اپنا وقت زیادہ اہم کاموں میں صرف کرنا چاہئے۔ (افس ۵:۱۶) کیا ہم بھی اِس اصول پر عمل کر سکتے ہیں تاکہ ہم بادشاہت کی مُنادی کے کام میں زیادہ حصہ لے سکیں؟
۹ وقت۔ ہماری عبادتگاہیں بنانے، ہماری کتابوں اور رسالوں کا ترجمہ کرنے اور اِنہیں چھاپنے، اِجتماعات کا اِنتظام کرنے، کسی آفت سے متاثرہ بہنبھائیوں کی مدد کرنے اور دیگر ضروری کام کرنے میں بہت زیادہ محنت اور وقت لگتا ہے۔ لیکن ہم سب کے پاس دن میں صرف ۲۴ گھنٹے ہی ہوتے ہیں جن میں ہمیں اپنے کام نپٹانے ہوتے ہیں۔ یسوع مسیح نے ہمیں ایک ایسا اصول دیا جس پر غور کرنے سے ہم اپنے وقت کو دانشمندی سے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ جب یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بادشاہت کی مُنادی کرنے بھیجا تو اُنہوں نے اُن سے کہا تھا کہ ’راہ میں کسی کو سلام نہ کرنا۔‘ یسوع مسیح نے اُنہیں یہ ہدایت کیوں کی تھی؟ (۱۰، ۱۱. (الف) ہمارے عطیات کن کاموں کے لئے اِستعمال ہوتے ہیں؟ (ب) ہم ۱-کرنتھیوں ۱۶:۱، ۲ میں درج نصیحت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
۱۰ پیسہ۔ مُنادی کے کام کو فروغ دینے کے لئے بہت سے پیسے کی ضرورت ہے۔ ہر سال سفری نگہبانوں، خصوصی پہلکاروں اور مشنریوں کے اخراجات پورے کرنے میں کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ غریب ملکوں میں ۱۹۹۹ء سے لے کر اب تک ۲۴ ہزار ۵۰۰سے زیادہ عبادتگاہیں تعمیر کی گئی ہیں۔ پھر بھی مزید ۶۴۰۰ عبادتگاہیں درکار ہیں۔ ہر مہینے مینارِنگہبانی اور جاگو! رسالے کی تقریباً دس کروڑ کاپیاں شائع ہوتی ہیں۔ یہ سب کام اُن عطیات سے ہوتے ہیں جو آپ اپنی خوشی سے دیتے ہیں۔
۱۱ پولُس رسول نے عطیات دینے کے سلسلے میں مسیحیوں کو ایک نصیحت کی تھی۔ (۱-کرنتھیوں ۱۶:۱، ۲ کو پڑھیں۔) اُنہوں نے خدا کے اِلہام سے کُرنتھس کے مسیحیوں کو ہدایت کی کہ وہ ہفتے کے شروع ہی میں اِتنی رقم بچا لیا کریں جتنی وہ عطیے میں دے سکتے ہیں۔ وہ اِس بات کا اِنتظار نہ کریں کہ ہفتے کے آخر میں جو رقم بچے گی، اُس کو عطیے میں دیں گے۔ پہلی صدی کی طرح آجکل بھی ہمارے بہنبھائی اپنے حالات کے مطابق طے کر لیتے ہیں کہ وہ کتنے عطیات دے سکتے ہیں۔ (لو ۲۱:۱-۴؛ اعما ۴:۳۲-۳۵) یہوواہ خدا ایسی قربانیوں کی بڑی قدر کرتا ہے۔
۱۲، ۱۳. بعض بہنبھائی بادشاہت کی خاطر اپنی صلاحیتوں کو اِستعمال کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟ لیکن یہوواہ خدا اُن کی مدد کیسے کرتا ہے؟
۱۲ قوت اور صلاحیت۔ جب ہم اپنی قوت اور صلاحیتوں کو بادشاہت کی خاطر اِستعمال کرتے ہیں تو خدا ہماری مدد کرتا ہے۔ جب ہم تھک جاتے ہیں تو وہ اپنے وعدے کے مطابق ہمیں زور اور توانائی بخشتا ہے۔ (یسع ۴۰:۲۹-۳۱) کیا ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم میں اِتنی صلاحیت نہیں کہ ہم خدا کے لئے کچھ کر سکیں؟ کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم سے زیادہ ہنرمند بہنبھائی بھی ہیں جو خدا کی تنظیم میں مختلف کام سنبھال سکتے ہیں؟ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کی صلاحیتوں کو نکھار سکتا ہے جیسے اُس نے بضلیایل اور اہلیاب کی صلاحیتوں کو نکھارا تھا۔—خر ۳۱:۱-۶۔ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
۱۳ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اپنی پوری قوت اور صلاحیت سے اُس کی خدمت کرتے رہیں۔ (امثا ۳:۲۷) جب یہودی، بابل کی سلطنت سے آزاد ہو کر واپس آئے تو یہوواہ خدا نے اُنہیں ہیکل کو دوبارہ بنانے کا حکم دیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھساتھ یہودیوں کا دھیان اِس کام سے ہٹ گیا اور وہ اپنے ذاتی کاموں میں مگن ہو گئے۔ اِس لئے یہوواہ خدا نے کہا کہ وہ ”اپنی روِش پر غور“ کریں۔ (حج ۱:۲-۵) ہمیں بھی خود سے پوچھنا چاہئے کہ ”کیا ہم واقعی اُن چیزوں کو اہم سمجھتے ہیں جو یہوواہ خدا کی نظر میں اہم ہیں؟ کیا ہم ”اپنی روِش پر غور“ کرتے ہیں تاکہ ہم اِس آخری زمانے میں بادشاہت کی خاطر زیادہ سے زیادہ کام کر سکیں؟“
اپنی توفیق کے مطابق قربانیاں دیں
۱۴، ۱۵. (الف) ہم اپنے غریب بہنبھائیوں کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟ (ب) ہمارا عزم کیا ہونا چاہئے؟
۱۴ ہمارے بہت سے بہنبھائی ایسے ملکوں میں رہتے ہیں جہاں غربت اور کئی دوسرے مسائل ہیں۔ ہماری تنظیم اِن بہنبھائیوں کی ”کمی پوری“ کرتی ہے یعنی وہ مُنادی کے کام کو فروغ دینے کے لئے اِمداد بھیجتی ہے۔ (۲-کر ۸:۱۴) لیکن یہ غریب بہنبھائی بھی عطیات دینے کے اعزاز کی قدر کرتے ہیں۔ جب یہ بہنبھائی خوشی سے عطیات دیتے ہیں تو یہوواہ خدا کا دل شاد ہوتا ہے۔—۲-کر ۹:۷۔
۱۵ افریقہ کے ایک غریب ملک میں ہمارے کچھ بہنبھائی اپنے باغ میں فصل اُگاتے ہیں۔ وہ باغ کے کچھ حصے پر نشان لگا کر یہ طے کر لیتے ہیں کہ اِس حصے کی فصل سے جو کمائی ہوگی، وہ مُنادی کے کام کے لئے عطیے میں دی جائے گی۔ اِسی ملک میں یہوواہ کے گواہوں کے لئے ایک اَور عبادتگاہ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ وہاں کے بہنبھائی تعمیر کے کام میں مدد کرنا چاہتے تھے۔ لیکن تعمیر کا کام فصل بونے کے وقت کے دوران شروع ہونا تھا۔ اِس کے باوجود بہنبھائی اِس کام میں حصہ لینا چاہتے تھے۔ وہ دن کے وقت عبادتگاہ بنانے میں حصہ لیتے اور شام کے وقت کھیتوں میں جا کر بیج بوتے تھے۔ اِن بہنبھائیوں نے واقعی بادشاہت کی خاطر قربانی دی۔ اِس مثال سے ہمیں وہ بہنبھائی یاد آتے ہیں جو پہلی صدی میں مکدنیہ کے علاقے میں رہتے تھے۔ وہ ”سخت غریبی“ میں زندگی گزار رہے تھے پھر بھی اُنہوں نے مِنت کی کہ اُنہیں اپنے بہنبھائیوں کے لئے اِمداد بھیجنے کا اعزاز دیا جائے۔ (۲-کر ۸:۱-۴) ہمارا بھی یہ عزم ہونا چاہئے کہ ہم بھی ’اُس توفیق کے مطابق دیں جو خدا نے ہمیں بخشی ہے۔‘—استثنا ۱۶:۱۷ کو پڑھیں۔
۱۶. ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہماری قربانیاں خدا کے حضور مقبول ٹھہریں؟
۱۶ یہ اچھی بات ہے کہ ہم بادشاہت کی خاطر قربانیاں دینا چاہتے ہیں لیکن ہمیں اِس سلسلے میں احتیاط سے کام بھی لینا چاہئے۔ بنیاِسرائیل کی طرح ہمیں بھی اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہماری رضا کی قربانیاں خدا کے حضور مقبول ہوں۔ لیکن ایسی کونسی وجہ ہو سکتی ہے جس کی بِنا پر یہوواہ ہماری قربانی کو رد کر سکتا ہے؟ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری زندگی میں سب سے اہم کام دُعا کرنا، بائبل کو پڑھنا، خاندانی عبادت کرنا، اِجلاسوں میں جانا، مُنادی میں حصہ لینا اور اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنا ہے۔ اگر ہم وہ وقت اور وسائل دوسروں کی مدد کرنے میں لگا دیتے ہیں جو دراصل ہمارے خاندان کے لئے ہیں تو ہم خدا کے حضور ایسی چیزیں قربان کر رہے ہوں گے جو ہماری نہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۸:۱۲ کو پڑھیں۔) اِس کے علاوہ ہمیں اپنی روحانی ضروریات کو بھی باقاعدگی سے پورا کرنا چاہئے۔ (۱-کر ۹:۲۶، ۲۷) لیکن جب ہم اپنی بنیادی ذمےداریوں کو وفاداری سے پورا کرتے ہیں تو ہمیں اپنی رضا کی قربانیوں سے خوشی اور اِطمینان حاصل ہوتا ہے اور وہ یہوواہ خدا کے حضور ”مقبول“ ٹھہرتی ہیں۔
ہماری قربانیاں قابلِقدر ہیں
۱۷، ۱۸. (الف) ہم اُن بہنبھائیوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں جو بادشاہت کی خاطر قربانیاں دیتے ہیں؟ (ب) ہمیں کس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے؟
۱۷ بہت سے بہنبھائی بادشاہت کی خاطر اپنے آپ کو ایک قربانی کے طور پر دے ڈالتے ہیں۔ (روم ۱۲:۱) ہم ایسے بہنبھائیوں کی واقعی قدر کرتے ہیں۔ جو بھائی بادشاہت کے کام میں پیشوائی کرتے ہیں، اُن کے بیویبچے بھی تعریف کے قابل ہیں کیونکہ اِن کے تعاون سے ہی وہ بھائی اپنی ذمےداریوں کو اچھی طرح انجام دیتے ہیں۔
۱۸ بادشاہت کے کام کو فروغ دینے کے لئے ابھی اَور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ آئیں،ہم سب اِس بات پر سنجیدگی سے غور کریں کہ ہم اِس کام میں بڑھچڑھ کر حصہ لینے کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ہم خدا سے رہنمائی مانگ سکتے ہیں۔ بادشاہت کی خاطر زیادہ سے زیادہ کام کرنے سے ہمیں نہ صرف اب بہت سی خوشیاں ملیں گی بلکہ ”آنے والے عالم میں“ بھی بےشمار برکتیں حاصل ہوں گی۔—مر ۱۰:۲۸-۳۰۔