خاندان کی خوشی کا راز
اپنے نوجوان بچے سے بحث کئے بغیر بات کریں
”جب میری بیٹی 14 سال کی ہوئی تو وہ میرے ساتھ بدتمیزی سے بات کرنے لگی۔ اگر مَیں اُس سے کہتی کہ کھانا کھا لو تو وہ آگے سے کہتی: ”بھوک لگے گی تو کھا لوں گی!“ اگر مَیں اُس سے کہتی کہ تُم نے فلاں کام کر لیا ہے تو وہ آگے سے کہتی: ”تنگ نہ کریں!“ کئی بار ہم دونوں ایک دوسرے پر چیختی چلّاتی تھیں۔“ —جاپان میں رہنے والی مکی۔ *
اگر آپ کا بچہ نوجوان ہے تو شاید وہ بات بات پر آپ سے اُلجھ پڑے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو آپ کے لئے بہت پریشانی کا باعث بن سکتا ہے اور آپ کے صبر کا اِمتحان لے سکتا ہے۔ برازیل میں رہنے والی ماریہ اپنی 14 سالہ بیٹی کے بارے میں کہتی ہیں: ”جب مَیں اپنی بیٹی سے کچھ کہتی ہوں اور آگے سے وہ اپنی من مانی کرتی ہے تو میرا خون کھولنے لگتا ہے۔ کبھیکبھار ہمیں ایک دوسرے پر اِتنا غصہ آ جاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے پر چلّانے لگتی ہیں۔“ اِٹلی میں رہنے والی کرمیلا کو بھی اِسی طرح کے مسئلے کا سامنا ہے۔ وہ کہتی ہیں: ”جب بھی میری اور میرے بیٹے کی کسی بات پر تکرار ہوتی ہے تو ہم دونوں ایک دوسرے پر بھڑک اُٹھتے ہیں۔ ہماری تکرار اُسی وقت رُکتی ہے جب میرا بیٹا خود کو کمرے میں بند کر لیتا ہے۔“
لیکن کچھ نوجوان اپنے ماںباپ کے ساتھ اِتنی بحثوتکرار کیوں کرتے ہیں؟ کیا اِس کے لئے اُن کے دوست ذمےدار ہیں؟ شاید۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ایک شخص کے دوست اُس پر اچھا یا بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ (امثال 13:20؛ 1-کرنتھیوں 15:33) اِس کے علاوہ آجکل نوجوانوں کے لئے ایسے ٹیوی پروگرام اور فلمیں بھی بنائی جاتی ہیں جن میں دِکھایا جاتا ہے کہ ماںباپ کے ساتھ بدتمیزی کرنا اور اُن کی نافرمانی کرنا عام بات ہے۔
لیکن کچھ اَور بھی باتیں ہیں جن پر آپ کو غور کرنا چاہئے۔ اگر آپ جان جاتے ہیں کہ اِن باتوں کا آپ کے بچے پر کیا اثر ہو رہا ہے تو پھر آپ اپنے بچے کے ساتھ بحثوتکرار میں پڑنے سے بچ سکتے ہیں۔ یہ کونسی باتیں ہیں؟ آئیں، اِن میں سے کچھ پر غور کریں۔
بچے میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا بڑھنا
یسوع مسیح کے شاگرد پولُس نے لکھا: ”جب مَیں بچہ تھا تو بچوں کی طرح بولتا تھا۔ بچوں کی سی طبیعت تھی۔ بچوں کی سی سمجھ تھی۔ لیکن جب جوان ہوا تو بچپن کی باتیں ترک کر دیں۔“ (1-کرنتھیوں 13:11) پولُس کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچوں اور بڑوں کے سوچنے کے انداز میں بہت فرق ہے۔ وہ کیسے؟
چھوٹے بچوں کی نظر میں ایک بات یا تو صحیح یا پھر غلط ہوتی ہے۔ لیکن بڑوں میں سوچنےسمجھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے اور اِس لئے وہ کوئی فیصلہ کرنے یا کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے معاملے کے بارے میں گہرائی سے سوچتے ہیں۔ مثال کے طور پر بڑے عموماً کسی معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے حقائق پر غور کرتے ہیں۔ وہ اِس بات پر بھی غور کرتے ہیں کہ اُن کے کاموں کا دوسروں پر کیا اثر ہوگا۔ غالباً اُنہیں اِس طرح سے سوچنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ لیکن نوجوان ایسا کرنا سیکھ رہے ہوتے ہیں۔
پاک کلام میں نوجوانوں کی حوصلہافزائی کی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر اچھے اور بُرے میں ”تمیز“ کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ (امثال 1:4) دراصل پاک کلام میں ہر شخص کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ ”نیکوبد میں اِمتیاز“ کرے۔ (عبرانیوں 5:14) چونکہ آپ کے نوجوان بچے میں سوچنےسمجھنے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے اِس لئے شاید وہ معمولی سی بات پر بھی آپ کے ساتھ بحث کرنے لگتا ہے یا پھر کوئی ایسی بات کہتا ہے جس سے آپ کو پتہ چلتا ہے کہ اُس کا نظریہ درست نہیں ہے۔ (امثال 14:12) اِس صورت میں آپ بحث کئے بغیر اُسے اپنی بات کیسے سمجھا سکتے ہیں؟
یہ کریں: اِس بات کو یاد رکھیں کہ آپ کا بچہ شاید صرف اپنی سوچنےسمجھنے کی صلاحیت کو نکھارنے کی کوشش کر رہا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ اپنی بات پر اَڑا رہے۔ اُس کی سوچ کو جاننے کے لئے سب سے پہلے اُسے داد دیں کہ اُس نے معاملے کے بارے میں سوچبچار کِیا ہے۔ شاید آپ اُس سے کہہ سکتے ہیں: ”مَیں آپ کی بات سے اِتفاق تو نہیں کرتا لیکن مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اِس بارے میں سوچبچار کِیا۔“ پھر اُس کی مدد کریں کہ وہ اپنی سوچ کا جائزہ لے۔ آپ اُس سے کچھ یوں کہہ سکتے ہیں: ”آپ کے خیال میں آپ نے ابھی جو کچھ کہا ہے، کیا اُسے ہر صورتحال میں لاگو کِیا جا سکتا ہے؟“ اگر آپ ایسا کریں گے تو شاید آپ کا بچہ دوبارہ سے اپنی سوچ کا جائزہ لے اور اُس میں بہتری لائے۔
لیکن بچے کو اپنی بات سمجھاتے وقت یہ نہ سوچیں کہ آپ کو خود کو صحیح ثابت کرنا ہے۔ آپ کو اُس وقت بھی ایسا ہی کرنا چاہئے جب آپ کو لگتا ہے کہ بچے نے آپ کی بات کو اَن سنا کر دیا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اکیلے میں آپ کی بات پر غور کرے۔ اور ہو سکتا ہے کہ کچھ دن بعد وہ اُسے مان بھی لے۔ یہاں تک کہ شاید وہ یہ کہے کہ اصل میں یہ اُسی کا نظریہ تھا۔
”کبھیکبھار مَیں اور میرا بیٹا چھوٹی سی بات پر بھی بحثوتکرار کرنے لگتے تھے جیسے کہ چیزیں ضائع نہ کرنا یا چھوٹی بہن کو تنگ نہ کرنا۔ لیکن اکثر بعد میں مجھے لگتا تھا کہ میرا بیٹا میرے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ یہ چاہتا تھا کہ مَیں اُس سے اُس کی رائے پوچھوں، اُسے سمجھوں اور اُس سے کہوں: ”اچھا تو یہ بات تھی“ یا ”اچھا تو آپ کے کہنے کا یہ مطلب تھا۔“ جب مَیں اُس وقت کو یاد کرتا ہوں تو مَیں سوچتا ہوں کہ اگر مَیں نے اپنے بیٹے سے ایسی باتیں کہی ہوتیں تو شاید ہم ایک دوسرے کے ساتھ اِتنی بحثوتکرار نہ کرتے۔“—جاپان میں رہنے والے کینجی۔
بچے کا اپنی ایک الگ پہچان بنانا
بچے کی پرورش کرنے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ والدین اُسے اُس دن کے لئے تیار کریں جب وہ اپنا گھر بسائے گا اور ایک ذمےدار شخص کے طور پر زندگی گزارے گا۔ (پیدایش 2:24) ایک ذمےدار شخص بننے میں یہ شامل ہے کہ بچہ اپنی ایک پہچان بنائے یعنی اُس کی عادتوں، نظریات اور اخلاقی معیاروں سے پتہ چلے کہ وہ کس طرح کا شخص ہے۔ جب ایک بچہ یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ کن معیاروں کے مطابق زندگی گزارے گا تو اِس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب اُس پر کوئی بُرا کام کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے تو وہ صرف اِس کام کے نتائج پر غور نہیں کرتا بلکہ خود سے یہ بھی پوچھتا ہے: ”مَیں کس طرح کا شخص ہوں؟ میرے معیار کیا ہیں؟ اِن معیاروں پر چلنے والا شخص ایسی صورتحال میں کیا کرے گا؟“—2-پطرس 3:11۔
پاک کلام میں یوسف نامی ایک نوجوان کی مثال دی گئی ہے جس نے فیصلہ کِیا تھا کہ وہ کن معیاروں کے مطابق زندگی گزارے گا۔ مثال کے طور پر جب ایک مصری افسر فوطیفار کی بیوی نے یوسف کو اپنے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے پر اُکسانے کی کوشش کی تو یوسف نے اُس سے کہا: ”بھلا مَیں کیوں ایسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟“ (پیدایش 39:9) حالانکہ یوسف کے زمانے میں بنیاِسرائیل کو زِناکاری سے دُور رہنے کے سلسلے میں کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا پھر بھی یوسف جانتے تھے کہ جنسی تعلقات کے بارے میں خدا کا کیا نظریہ ہے۔ یوسف کے اِن الفاظ ”بھلا مَیں کیوں“ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہوں نے خدا کا نظریہ اپنا لیا تھا اور اِسے اپنی پہچان بنا لیا تھا۔—افسیوں 5:1۔
آپ کا بچہ بھی نوجوانی کے مرحلے میں اپنی ایک الگ پہچان بنا رہا ہے جو کہ بہت اچھی بات ہے۔ اپنے نظریات کی بِنا پر وہ اپنے ہمعمروں کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگا اور اپنے معیاروں پر قائم رہے گا۔ (امثال 1:10-15) چونکہ اب وہ معاملات کو اپنی نظر سے دیکھنے لگا ہے اِس لئے ممکن ہے کہ وہ آپ کے نظریات سے بھی متفق نہ ہو اور اِس وجہ سے آپ کے ساتھ اُلجھ پڑے۔ ایسی صورتحال میں آپ کیا کر سکتے ہیں؟
یہ کریں: اپنے نوجوان بچے کے ساتھ بحث میں اُلجھنے کی بجائے اُسی کی بات کو دُہرائیں۔ آپ اُس سے کچھ یوں کہہ سکتے ہیں: ”اچھا تو آپ کہہ رہے ہیں کہ . . .۔“ پھر اُس سے پوچھیں: ”آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے؟“ یا ”آپ کس وجہ سے اِس نتیجے پر پہنچے ہیں؟“ اُس کے دل کی بات جاننے کی کوشش کریں۔ اُسے اپنے نظریات کُھل کر بیان کرنے کا موقع دیں۔ اگر مسئلہ صحیح اور غلط کا نہیں ہے بلکہ صرف اِتنا ہے کہ کس
کی رائے بہتر ہے تو چاہے آپ اپنے بچے کی بات سے متفق نہ بھی ہوں تو بھی یہ ظاہر کریں کہ آپ اُس کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔کسی معاملے کے بارے میں اپنا نظریہ قائم کرنا نہ صرف فطری بات ہے بلکہ اِس سے بہت فائدہ بھی ہوتا ہے۔ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ خدا کے خادموں کو چھوٹے بچوں کی طرح نہیں ہونا چاہئے جو ’ہر ایک تعلیم کے جھوکے سے موجوں کی طرح اُچھلتے بہتے پھرتے ہیں۔‘ (افسیوں 4:14) لہٰذا اپنے بچے کی حوصلہافزائی کریں کہ وہ اپنی ایک الگ پہچان بنائے اور اپنے نظریات پر قائم رہے۔
”جب مَیں اپنی بیٹیوں پر یہ ظاہر کرتی ہوں کہ مَیں اُن کی بات سننے کو تیار ہوں تو وہ میری بات پر بھی غور کرنے کو تیار ہو جاتی ہیں، چاہے وہ اِس سے متفق نہ بھی ہوں۔ مَیں اِس بات کا خیال رکھتی ہوں کہ مَیں اُن پر اپنی رائے تھوپنے کی کوشش نہ کروں بلکہ اُنہیں اپنے نظریات قائم کرنے دوں۔“—چیک ریپبلک میں رہنے والی ایوانا۔
اصولوں کے پکے ہوں مگر حالات کے مطابق نرمی برتیں
چھوٹے بچوں کی طرح کچھ نوجوان بھی اپنی بات منوانے کے لئے ماںباپ کے سامنے ایک ہی بات دُہراتے رہتے ہیں۔ وہ تب تک ہار نہیں مانتے جب تک ماںباپ ہاں نہیں کر دیتے۔ اگر آپ کے بچے بھی اکثر ایسا ہی کرتے ہیں تو اِسے معمولی خیال نہ کریں۔ سچ ہے کہ نوجوان بچے کی ضد مان لینے سے شاید وقتی طور پر آپ کی جان چُھوٹ جائے لیکن اِس سے وہ یہ سوچنے لگے گا کہ بحث کرکے وہ جو چاہے منوا سکتا ہے۔ آپ اِس صورت میں کیا کر سکتے ہیں؟ یسوع مسیح کی اِس نصیحت پر عمل کریں: ”تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو۔“ (متی 5:37) جب آپ کا نوجوان بچہ دیکھے گا کہ آپ اپنی بات پر قائم ہیں تو اِس بات کا اِمکان کم ہوگا کہ وہ آپ کے ساتھ بحث میں اُلجھے۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ حالات کے مطابق نرمی سے بھی کام لیں۔ مثال کے طور پر اگر بچہ کسی موقعے پر دیر سے گھر آنے کی اِجازت مانگتا ہے تو اُس سے اِس کی وجہ پوچھیں۔ اگر آپ اپنے بچے کو دیر سے آنے کی اِجازت دے دیتے ہیں تو آپ اُس کے دباؤ میں نہیں آ رہے ہوں گے بلکہ آپ پاک کلام کی اِس نصیحت پر عمل کر رہے ہوں گے: ”تمہاری نرممزاجی سب . . . پر ظاہر ہو۔“—فلپیوں 4:5۔
یہ کریں: اپنے بچے کے ساتھ دیر سے گھر آنے کے بارے میں اور گھر کے دیگر اصولوں کے بارے میں بات کریں۔ بچے پر ظاہر کریں کہ آپ اُس کی بات سننے کو تیار ہیں اور فیصلہ کرنے سے پہلے آپ اُس کی بات کو خاطر میں لائیں گے۔ برازیل میں رہنے والے ایک والد روبرتو کہتے ہیں: ”نوجوان بچوں کو نظر آنا چاہئے کہ اُن کے ماںباپ اُسی صورت میں اُن کی بات مانیں گے اگر یہ پاک کلام کے اصولوں سے نہیں ٹکرائے گی۔“
بِلاشُبہ والدین سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔“ (یعقوب 3:2) اگر آپ کو لگتا ہے کہ بحثوتکرار میں آپ بھی کسی حد تک ذمےدار ہیں تو اپنے بچے سے معافی مانگنے سے نہ ہچکچائیں۔ اگر آپ اپنی غلطی کو تسلیم کریں گے تو آپ اپنے بچے کے لئے فروتنی کی مثال قائم کریں گے اور یوں وہ بھی ایسا کرنا سیکھ جائے گا۔
”ایک بار جب میرے اور میرے بیٹے کے بیچ بحث ہوئی تو غصہ ٹھنڈا ہونے پر مَیں نے اپنے بیٹے سے معافی مانگی۔ اِس وجہ سے میرے بیٹے کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا اور اُس کے لئے میری بات سننا آسان ہو گیا۔“—جاپان میں رہنے والے کینجی۔
^ پیراگراف 3 اِس مضمون میں فرضی نام استعمال کئے گئے ہیں۔
خود سے پوچھیں:
-
مَیں کن باتوں کی وجہ سے اپنے نوجوان بچے کے ساتھ بحثوتکرار کرنے لگتا ہوں؟
-
مَیں اپنے بچے کو سمجھنے کے لئے اِس مضمون میں لکھی باتوں پر کیسے عمل کر سکتا ہوں؟
-
مَیں بحث کئے بغیر اپنے بچے کے ساتھ کیسے بات کر سکتا ہوں؟