مواد فوراً دِکھائیں

آپ نے پوچھا ‏.‏.‏.‏

خدا کو کس نے بنایا ہے؟‏

خدا کو کس نے بنایا ہے؟‏

ذرا اِس منظر کو تصور کی آنکھ سے دیکھیں۔‏ ایک باپ اپنے سات سال کے بیٹے سے بات کر رہا ہے۔‏ وہ اُس سے کہتا ہے:‏ ”‏بہت عرصہ پہلے خدا نے زمین اور اِس پر سب چیزوں کو بنایا۔‏ اُس نے سورج،‏ چاند اور ستارے بھی بنائے۔‏“‏ بیٹا تھوڑی دیر کے لیے سوچنے لگتا ہے اور پھر باپ سے پوچھتا ہے:‏ ”‏ابو!‏ تو خدا کو کس نے بنایا ہے؟‏“‏

باپ جواب دیتا ہے:‏ ”‏خدا کو کسی نے نہیں بنایا۔‏ وہ ہمیشہ سے ہے۔‏“‏ اِس سادہ سی بات کو سُن کر بیٹا اُس وقت تو مطمئن ہو جاتا ہے۔‏ لیکن جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اُس کے دل میں اِس سوال کا جواب جاننے کا تجسّس بڑھ جاتا ہے۔‏ اُسے یہ سمجھ نہیں آتا کہ بھلا کوئی ہمیشہ سے کیسے موجود ہو سکتا ہے۔‏ وہ سوچتا ہے:‏ ”‏کائنات کو بھی تو کسی نے بنایا ہے۔‏ تو پھر خدا کو کس نے بنایا ہے؟‏“‏

خدا کے کلام میں اِس سوال کا کیا جواب دیا گیا ہے؟‏ تقریباً وہی جواب جو مثال میں بتائے گئے باپ نے اپنے بیٹے کو دیا تھا۔‏ موسیٰ نبی نے لکھا:‏ ”‏یا رب [‏یہوواہ!‏]‏ .‏.‏.‏ اِس سے پیشتر کہ پہاڑ پیدا ہوئے یا زمین اور دُنیا کو تُو نے بنایا۔‏ ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے‏۔‏‏“‏ ‏(‏زبور 90:‏1،‏ 2‏)‏ یسعیاہ نبی نے بھی کہا:‏ ”‏کیا تجھے معلوم نہیں،‏ کیا تُو نے نہیں سنا کہ ‏[‏یہوواہ]‏ لازوال خدا اور دُنیا کی اِنتہا تک کا خالق ہے؟‏“‏ (‏یسعیاہ 40:‏28‏،‏ اُردو جیو ورشن‏)‏ یسوع مسیح کے شاگرد یہوداہ نے بھی اپنے خط میں خدا کے بارے میں بتایا کہ وہ ”‏ہمیشہ سے ہے۔‏“‏—‏یہوداہ 25‏۔‏

پاک کلام کی اِن آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا ’‏ابدیت کا بادشاہ‘‏ ہے۔‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 1:‏17‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ خدا ہمیشہ سے موجود ہے پھر چاہے ہم اربوں سال پیچھے کا ہی کیوں نہ سوچیں۔‏ وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔‏ (‏مکاشفہ 1:‏8‏)‏ دراصل لامحدود قدرت کے مالک یہوواہ کی ایک پہچان اُس کا ازلی وجود ہے۔‏

ہمیں اِس خیال کو سمجھنا مشکل کیوں لگ سکتا ہے؟‏ کیونکہ اپنی مختصر سی زندگی کی وجہ سے ہم وقت کا جس طرح سے حساب لگاتے ہیں،‏ وہ یہوواہ کے وقت کا حساب لگانے سے بالکل فرق ہے۔‏ ازلی خدا کی نظر میں ایک دن 1000 سال کے برابر ہے۔‏ (‏2-‏پطرس 3:‏8‏)‏ اِس بات کو سمجھنے کے لیے ذرا اِس مثال پر غور کریں:‏ کیا ایک ٹڈا جس کی زندگی صرف 50 دن کی ہوتی ہے،‏ اِنسانوں کی 70 یا 80 سالہ زندگی کے عرصے کو سمجھ سکتا ہے؟‏ بالکل نہیں۔‏ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ اپنے عظیم خالق کے مقابلے میں ہم محض ٹڈے ہیں۔‏ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اُس کی صلاحیت کے آگے کچھ بھی نہیں۔‏ (‏یسعیاہ 40:‏22؛‏ 55:‏8،‏ 9‏)‏ اِسی لیے خاکی اِنسانوں کے طور پر ہم یہوواہ کے بارے میں بہت سی باتوں کو پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتے۔‏

سچ ہے کہ اِس خیال کو سمجھنا مشکل ہے کہ خدا ہمیشہ سے ہے۔‏ لیکن ذرا سوچیں کہ اگر کسی اَور نے خدا کو بنایا ہے تو وہ ہستی خالق بن جائے گی۔‏ لیکن پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ وہ ہستی ہے جس نے ”‏سب چیزیں بنائی ہیں۔‏“‏ (‏مکاشفہ 4:‏11‏)‏ اِس کے علاوہ ہم جانتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب کائنات کا کوئی نام‌ونشان نہیں تھا۔‏ (‏پیدایش 1:‏1،‏ 2‏)‏ یہ کیسے وجود میں آئی؟‏ ظاہری بات ہے کہ اِسے وجود میں لانے کے لیے خالق پہلے سے موجود تھا۔‏ اُس کا وجود تو تب بھی تھا جب اُس نے یسوع مسیح اور فرشتوں کو بھی نہیں بنایا تھا۔‏ (‏ایوب 38:‏4،‏ 7؛‏ کُلسّیوں 1:‏15‏)‏ اِن سب سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف وہ اکیلا ہمیشہ سے موجود تھا۔‏ کوئی اَور تھا ہی نہیں جو اُسے بنا سکتا۔‏

اِس کائنات کا موجود ہونا اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خدا ہمیشہ سے ہے۔‏ ظاہری بات ہے کہ وہ پہلے سے موجود تھا جو اُس نے ہماری کائنات کو خلق کِیا اور ایسے قوانین قائم کیے جن کے مطابق یہ چلتی ہے۔‏ ہمارا وجود اِس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ صرف وہی ہر جان‌دار شے کو زندگی دے سکتا ہے۔‏—‏ایوب 33:‏4‏۔‏