باب نمبر 14
اُنہوں نے رحم کا درس پایا
1. (الف) یُوناہ کو جو سفر طے کرنا تھا، وہ کیسا تھا؟ (ب) یُوناہ اپنی منزل کی طرف بڑھتے وقت کیسا محسوس کر رہے تھے؟
یُوناہ کو ایک لمبا سفر طے کرنا تھا جس کے دوران اُنہیں خوب سوچ بچار کرنے کا موقع ملا ہوگا۔ اُن کی منزل 800 کلومیٹر (500 میل) سے بھی زیادہ دُور تھی اور پیدل وہاں پہنچنے میں اُنہیں تقریباً ایک مہینہ یا اِس سے بھی اُوپر وقت لگنا تھا۔ پہلے تو اُنہیں طے کرنا تھا کہ وہ چھوٹے راستے سے جائیں گے جس میں اُنہیں خطروں کا سامنا ہو سکتا تھا یا لمبے راستے کا اِنتخاب کریں گے جو زیادہ محفوظ تھا۔ پھر اُنہیں لاتعداد وادیوں اور پہاڑی راستوں سے گزر کر منزل کی جانب بڑھنا تھا۔ غالباً اُنہیں وسیع دشتِارام کے کنارے کنارے سے ہو کر جانا تھا، مختلف دریاؤں جیسے کہ بڑے دریائےفرات کو عبور کرنا تھا اور سفر کے دوران آرام کرنے کے لیے مسوپتامیہ، اسور اور ارام کے شہروں اور دیہاتوں میں اجنبی لوگوں کے بیچ ٹھکانے ڈھونڈنے تھے۔ دراصل یُوناہ کی منزل شہر نینوہ تھی جہاں جانے سے وہ بہت گھبرا رہے تھے۔ اُن کا ہر قدم اُنہیں منزل کے اَور قریب لے جا رہا تھا اور اُن کی پریشانی کو بڑھا رہا تھا۔
2. یہوواہ خدا، یُوناہ کو یہ کیسے سمجھا چُکا تھا کہ وہ اپنی ذمےداری سے بھاگ نہیں سکتے ہیں؟
2 اِس بات کا تو یُوناہ کو پکا پتہ تھا کہ وہ اپنی ذمےداری سے بھاگ نہیں سکتے۔ وہ پہلے ہی ایسا کرنے کی ناکام کوشش کر چُکے تھے۔ جیسا کہ ہم نے پچھلے باب میں دیکھا تھا، یہوواہ نے ایک سمندری طوفان لا کر اور پھر مچھلی کے ذریعے یُوناہ کو معجزانہ طور پر بچا کر اُنہیں فرمانبرداری کی اہمیت سمجھائی تھی۔ تین دن کے بعد مچھلی نے یُوناہ کو ساحل پر اُگل دیا تھا۔ اِن سب حیرتانگیز واقعات کا یُوناہ پر گہرا اثر ہوا تھا اور وہ زیادہ فرمانبردار اور خاکسار بن گئے تھے۔—یُوناہ، باب 1، 2۔
3. یہوواہ نے یُوناہ کے ساتھ پیش آتے وقت کون سی خوبی ظاہر کی اور اِس حوالے سے کون سا سوال کھڑا ہوتا ہے؟
یُوناہ 3:1-3 کو پڑھیں۔) لیکن کیا یہوواہ کی طرف سے اِصلاح ملنے کے بعد یُوناہ کا رویہ مکمل طور پر بدل چُکا تھا؟ یہوواہ نے اُن پر رحم ظاہر کرتے ہوئے اُنہیں ڈوبنے سے بچایا تھا، اُن کی نافرمانی پر اُنہیں سزا دینے سے ہاتھ روکا تھا اور اُنہیں نینوہ جا کر اپنی ذمےداری پوری کرنے کا ایک اَور موقع دیا تھا۔ اِس سب کے بعد کیا یُوناہ نے رحم کا درس حاصل کِیا تھا؟ عیبدار اِنسانوں کے لیے دوسروں پر رحم ظاہر کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ یُوناہ نے ایسا کرنا کیسے سیکھا اور اُن کی مثال میں ہمارے لیے کون سے سبق پائے جاتے ہیں۔
3 جب یہوواہ نے دوسری بار یُوناہ کو نینوہ جانے کے لیے کہا تو یُوناہ، خدا کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مشرق کی طرف اِس لمبے سفر پر نکل پڑے۔ (تباہی کا پیغام اور لوگوں کا غیرمتوقع ردِعمل
4، 5. یہوواہ نے نینوہ کو ’بڑا شہر‘ کیوں کہا اور اِس سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟
4 یُوناہ کی کتاب میں لکھا ہے: ”نینوؔہ بہت بڑا شہر تھا۔“ (یُوناہ 3:3) نینوہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہوواہ نے بھی تین مرتبہ اُسے ’بڑا شہر‘ کہا۔ (یُوناہ 1:2؛ 3:2؛ 4:11) اِن آیتوں میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”بڑا“ یا ”بڑے“ کِیا گیا ہے، اُس کا مطلب ”اہم“ بھی ہے۔ لیکن یُوناہ اِس بات کو نہیں سمجھ رہے تھے کہ یہوواہ کے نزدیک نینوہ کیوں اہم ہے۔ آخر یہوواہ کی نظر میں نینوہ کی اہمیت کی وجہ کیا تھی؟
5 نینوہ اُن قدیم شہروں میں شامل تھا جو نمرود نے طوفان کے بعد بنائے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ اِس وسیع شہر کے علاقے میں اَور بھی کئی شہر موجود تھے۔ اِس پورے علاقے کا چکر لگانے میں تقریباً تین دن لگتے تھے۔ (پید 10:11، 12؛ یُوناہ 3:3) نینوہ بہت خوبصورت شہر بھی تھا جس میں بڑے بڑے مندر، مضبوط دیواریں اور عالیشان عمارتیں پائی جاتی تھیں۔ لیکن یہوواہ کے نزدیک نینوہ کی اہمیت کی وجہ اِن میں سے کوئی بھی بات نہیں تھی۔ اُس کی نظر میں تو وہاں کے لوگ اہم تھے۔ نینوہ کی آبادی اُس وقت کے حساب سے بہت زیادہ تھی۔ اور اگرچہ وہاں کے لوگ بُرے کام کر رہے تھے تو بھی یہوواہ کو اُن کی فکر تھی۔ تمام اِنسانوں کی طرح یہوواہ نینوہ کے لوگوں سے بھی پیار کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ توبہ کریں اور اُس کے حکموں پر چلنا سیکھیں۔
6. (الف) نینوہ پہنچ کر یُوناہ کا خوف کیوں بڑھ گیا ہوگا؟ (فٹنوٹ کو بھی دیکھیں۔) (ب) یُوناہ نے جس طرح سے نینوہ میں مُنادی کی، اُس سے ہمیں اُن کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟
6 جب یُوناہ آخرکار نینوہ پہنچے تو 1 لاکھ 20 ہزار سے زیادہ آبادی والے اِس شہر میں لوگوں کی بِھیڑبھاڑ دیکھ کر وہ اَور خوفزدہ ہو گئے ہوں گے۔ * وہ ایک دن تک چلتے رہے اور پھر شہر کے اندرونی حصے میں پہنچے۔ غالباً اُنہوں نے یہ اِس لیے کِیا تاکہ اُنہیں کوئی ایسی جگہ ملے جہاں رش ہو اور اُن کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ مگر یُوناہ نے لوگوں سے بات کیسے کی؟ کیا اُنہوں نے اسوری زبان سیکھ لی تھی؟ یا کیا یہوواہ نے اُنہیں معجزانہ طور پر یہ زبان بولنے کے قابل بنایا تھا؟ ہم اِس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یُوناہ نے اپنی مادری زبان عبرانی میں مُنادی کی ہو اور ساتھ کوئی ترجمہ کرنے والا رکھا ہو۔ بہرحال یُوناہ کا پیغام بہت سادہ تھا اور اِس بات کا اِمکان کافی کم تھا کہ اُن کا یہ پیغام لوگوں کو پسند آئے گا۔ لیکن اُنہوں نے بڑی ہمت دِکھاتے ہوئے بار بار لوگوں سے کہا: ”چالیس روز کے بعد نینوؔہ برباد کِیا جائے گا۔“ (یُوناہ 3:4) اِس طرح اُنہوں نے بڑے عمدہ طریقے سے دلیری اور ایمان کا مظاہرہ کِیا۔ دراصل یہ ایسی خوبیاں ہیں جن کی آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
یُوناہ کا پیغام بہت سادہ تھا اور اِس بات کا اِمکان کافی کم تھا کہ اُن کا یہ پیغام لوگوں کو پسند آئے گا۔
7، 8. (الف) یُوناہ کے پیغام کو سُن کر نینوہ کے لوگوں نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟ (ب) جب بادشاہ کو یُوناہ کے پیغام کے بارے میں پتہ چلا تو اُس نے کیا کِیا؟
7 یُوناہ کے پیغام نے فوراً لوگوں کی توجہ کھینچ لی۔ بِلاشُبہ یُوناہ کو لگ رہا ہوگا کہ یہ پیغام سُن کر لوگ بھڑک اُٹھیں گے اور اُن پر تشدد کرنے لگیں گے۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا جو یُوناہ کی توقع کے بالکل اُلٹ تھا۔ لوگوں نے اُن کی باتوں یُوناہ 3:5 کو پڑھیں۔) امیروں اور غریبوں، مردوں اور عورتوں، نوجوانوں اور بوڑھوں سب نے توبہ کی اور روزہ رکھا۔ جلد ہی اِس سب کی خبر بادشاہ کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔
پر کان دھرا۔ اُن کا پیغام جنگل میں آگ کی طرح پھیل گیا اور کچھ ہی دیر میں پورا شہر تباہی کی اُس پیشگوئی کے متعلق بات کرنے لگا جس کی مُنادی یُوناہ کر رہے تھے۔ (8 یُوناہ کے پیغام کے بارے میں سُن کر بادشاہ بھی توبہ کرنے کی طرف مائل ہو گیا۔ اُس کے دل میں اِس حد تک خدا کا خوف بیٹھا کہ اُس نے اپنے تخت سے اُتر کر شاہی لباس اُتارا، دیگر لوگوں کی طرح ماتمی لباس پہنا اور ”راکھ پر بیٹھ گیا۔“ ویسے تو لوگ پہلے بھی کھانا نہیں کھا رہے تھے لیکن بادشاہ نے اپنے ”ارکانِدولت“ یعنی وزیروں کے ساتھ مل کر پورے شہر میں روزہ رکھنے کا باضابطہ حکم جاری کِیا۔ اُس نے یہ فرمان بھی صادر کِیا کہ سب لوگ ٹاٹ اوڑھیں، یہاں تک کہ جانوروں کو بھی ماتمی لباس پہنایا جائے۔ * اُس نے خاکساری سے یہ تسلیم کِیا کہ اُس کی رعایا نے ظلموتشدد سمیت بہت سے بُرے کام کیے ہیں۔ اِس کے بعد اُس نے اِس اُمید کا اِظہار کِیا: ”شاید خدا رحم کرے اور . . . اپنے قہرِشدید سے باز آئے اور ہم ہلاک نہ ہوں۔“—یُوناہ 3:6-9۔
9. کچھ لوگ نینوہ کے لوگوں کی توبہ کے حوالے سے کس شک کا اِظہار کرتے ہیں اور اُن لوگوں کا شک بےبنیاد کیوں ہے؟
9 کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ناممکن سی بات ہے کہ نینوہ کے لوگوں نے اِتنی جلدی توبہ کر لی ہو۔ لیکن بائبل کے عالموں کا کہنا ہے کہ قدیم زمانے کی بہت سی ثقافتوں کی طرح نینوہ کی ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بہت وہمی ہوا کرتے تھے اور اِس لیے یہ حیرانی کی بات نہیں کہ تباہی کی پیشگوئی سُن کر اُن لوگوں نے فوراً اپنی روِش بدل لی۔ جو لوگ اِس واقعے کو سچ نہیں مانتے، اُن کا شک اِس لیے بھی بےبنیاد ہے کیونکہ بعد میں یسوع نے نینوہ کے لوگوں کی توبہ کا ذکر کِیا۔ (متی 12:41 کو پڑھیں۔) یسوع مسیح اِس لیے یقین کے ساتھ اِس بارے میں بات کر سکتے تھے کیونکہ وہ آسمان سے اِن سب واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چُکے تھے۔ (یوح 8:57، 58) دراصل ہمیں کبھی بھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ فلاں شخص توبہ کر ہی نہیں سکتا پھر چاہے وہ کتنا ہی ظالم کیوں نہ دِکھائی دے۔ صرف یہوواہ ہی جانتا ہے کہ ایک شخص کے دل میں کیا ہے۔
خدا کا رحم اور یُوناہ کی سختدلی
10، 11. (الف) نینوہ کے لوگوں کی توبہ پر یہوواہ نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟ (ب) ہم یہ یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ نے نینوہ کے لوگوں کو سزا دینے کا جو فیصلہ کِیا تھا، وہ ہرگز غلط نہیں تھا؟
10 نینوہ کے لوگوں کی توبہ پر یہوواہ نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟ یُوناہ نے بعد میں لکھا: ”جب خدا نے اُن کی یہ حالت یُوناہ 3:10۔
دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بُری روِش سے باز آئے تو وہ اُس عذاب سے جو اُس نے اُن پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اُسے نازل نہ کِیا۔“—11 کیا اِس کا مطلب ہے کہ یہوواہ کو یہ احساس ہو گیا کہ اُس نے نینوہ کے لوگوں کو سزا دینے کا جو فیصلہ کِیا تھا، وہ غلط تھا؟ ہرگز نہیں۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ راستی سے اِنصاف کرنے والا خدا ہے۔ (اِستثنا 32:4 کو پڑھیں۔) تو پھر اُس نے اپنا فیصلہ کیوں بدل دیا؟ بات دراصل یہ ہے کہ یہوواہ کو نینوہ کے لوگوں پر جو غصہ تھا، وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ چونکہ اُن لوگوں نے اپنے بُرے طورطریقے چھوڑ دیے تھے اِس لیے یہوواہ نے اُن کو سزا دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اب وہ لوگ اِس قابل تھے کہ اُن پر رحم کِیا جائے۔
12، 13. (الف) یہوواہ یہ کیسے ظاہر کرتا ہے کہ وہ رحیم ہے اور صورتحال کے مطابق اپنا فیصلہ بدلنے کے لیے تیار رہتا ہے؟ (ب) یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یُوناہ کی پیشگوئی جھوٹی نہیں تھی؟
12 بہت سے مذہبی رہنما اپنی تعلیمات سے لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ خدا بڑا ظالم ہے اور جب وہ کسی کو سزا دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو اِس پر اَڑا رہتا ہے۔ لیکن یہوواہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ وہ تو اِنسانوں کے ساتھ بڑی نرمی اور رحم سے پیش آتا ہے اور صورتحال کے مطابق اپنا فیصلہ بدلنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ جب وہ بُرے لوگوں کو سزا دینے کا اِرادہ کرتا ہے تو وہ پہلے زمین پر اپنے نمائندوں کے ذریعے اُنہیں خبردار کرتا ہے۔ دراصل وہ چاہتا ہے کہ بُرے اشخاص نینوہ کے لوگوں کی طرح توبہ کریں اور اپنی روِش بدلیں۔ (حِز 33:11) اُس نے اپنے نبی یرمیاہ کے ذریعے کہا: ”اگر کسی وقت مَیں کسی قوم اور کسی سلطنت کے حق میں کہوں کہ اُسے اُکھاڑوں اور توڑ ڈالوں اور ویران کروں اور اگر وہ قوم جس کے حق میں مَیں نے یہ کہا اپنی بُرائی سے باز آئے تو مَیں بھی اُس بدی سے جو مَیں نے اُس پر لانے کا اِرادہ کِیا تھا باز آؤں گا۔“—یرم 18:7، 8۔
یہوواہ چاہتا ہے کہ بُرے اشخاص نینوہ کے لوگوں کی طرح توبہ کریں اور اپنی روِش بدلیں۔
13 تو پھر کیا وہ پیشگوئی جھوٹی تھی جو یُوناہ نے نینوہ کے بارے میں کی تھی؟ جی نہیں۔ اُس پیشگوئی کا جو مقصد تھا، وہ پورا ہوا۔ دراصل وہ پیشگوئی اِس لیے کی گئی تھی تاکہ لوگوں کو خبردار کِیا جائے کہ اُنہیں اپنے بُرے چالچلن کی وجہ سے کتنے سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ اُس وقت لوگوں نے یُوناہ کی بات پر دھیان دیا اور اپنی روِش کو بدل لیا۔ لیکن اگر نینوہ کے لوگ پھر سے بُرے کام کرنے لگتے تو یہوواہ اُنہیں وہ سزا ضرور دیتا جس کی پیشگوئی یُوناہ نے کی تھی۔ اور دراصل بعد میں ایسا ہوا بھی۔—صفن 2:13-15۔
14. جب یہوواہ نے نینوہ پر رحم کِیا تو یُوناہ نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟
14 جب یُوناہ کی توقع کے مطابق 40 دن کے بعد نینوہ تباہ نہیں ہوا تو اُن کا کیا ردِعمل تھا؟ بائبل میں لکھا ہے: ”یُوناؔہ اِس سے نہایت ناخوش اور ناراض ہوا۔“ (یُوناہ 4:1) یہاں تک کہ اُنہوں نے خدا سے ایسے دُعا کی جیسے وہ اُس کی اِصلاح کر رہے ہوں۔ یُوناہ نے اپنی باتوں سے ظاہر کِیا کہ اُن کے خیال میں نینوہ آنے سے بہتر یہ ہوتا کہ وہ اپنے ملک میں اپنے گھر پر رہتے۔ اُنہوں نے یہ دعویٰ کِیا کہ اُنہیں پہلے سے پتہ تھا کہ خدا نینوہ کو تباہ نہیں کرے گا اور کہا کہ اِس بِنا پر اُن کا ترسیس بھاگ جانا صحیح تھا۔ پھر اُنہوں نے خدا سے موت مانگی کیونکہ اُنہیں لگ رہا تھا کہ اُن کے زندہ رہنے سے اچھا ہے کہ وہ مر جائیں۔—یُوناہ 4:2، 3 کو پڑھیں۔
15. (الف) یُوناہ کے غموغصے کی غالباً کیا وجہ تھی؟ (ب) یہوواہ اپنے بندے یُوناہ کے ساتھ کیسے پیش آیا؟
یُوناہ 4:4، اُردو جیو ورشن) کیا یُوناہ نے اِس سوال کا جواب دیا؟ بائبل اِس حوالے سے خاموش ہے۔
15 یُوناہ کے ایسے ردِعمل کی کیا وجہ تھی؟ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ اُس وقت اُن کے ذہن میں کون سی باتیں چل رہی تھیں لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ یُوناہ نے لوگوں کو تباہی کا پیغام سنایا تھا اور لوگوں نے اُن کی بات پر یقین کر لیا تھا۔ مگر چونکہ اب وہ تباہی ٹل چُکی تھی اِس لیے شاید یُوناہ کو یہ ڈر تھا کہ اُنہیں طنزومذاق کا نشانہ بنایا جائے گا یا پھر جھوٹا نبی قرار دے دیا جائے گا۔ بہرحال یُوناہ کو لوگوں کے توبہ کرنے پر اور خدا کے رحم ظاہر کرنے پر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ اِس کی بجائے وہ غموغصے میں مبتلا ہو گئے، اپنے حال پر افسوس کرنے لگے اور یہ سوچنے لگے کہ اُن کی بےعزتی ہو جائے گی۔ اِس سب کے باوجود یہوواہ نے یُوناہ پر رحم ظاہر کِیا اور یہ یاد رکھا کہ اُن میں خوبیاں بھی ہیں۔ اُنہیں اُن کی بےادبی پر سزا دینے کی بجائے یہوواہ نے بڑی نرمی سے اُن سے پوچھا: ”کیا تُو غصے ہونے میں حق بجانب ہے؟“ (16. (الف) کچھ لوگ کس طرح خدا کے کام کرنے کے طریقے پر اِعتراض کرتے ہیں؟ (ب) یُوناہ کی مثال سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟
16 شاید یُوناہ کے اِس رویے کی وجہ سے فوراً اُن کے بارے میں غلط رائے قائم کر لی جائے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یُوناہ وہ واحد اِنسان نہیں تھے جنہوں نے خدا کے کام کرنے کے طریقے پر اِعتراض کِیا۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ خدا کو فلاں حادثے کو روک لینا چاہیے تھا یا فلاں موقعے پر بُرے لوگوں کے خلاف فوراً کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ اور بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ خدا کو اب تک اِس بُری دُنیا کا خاتمہ کر دینا چاہیے تھا۔ یُوناہ کی مثال اِس بات کو یاد رکھنے میں ہماری مدد کرتی ہے کہ اگر کبھی ہم یہوواہ کے کام کرنے کے طریقے سے اِتفاق نہیں کرتے تو ہمیشہ ہمیں ہی اپنی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ یہوواہ کو۔
کدو کی بیل کے ذریعے رحم کا درس
17، 18. (الف) نینوہ سے نکلنے کے بعد یُوناہ نے کیا کِیا؟ (ب) یہوواہ نے کدو کی بیل کے حوالے سے جو معجزے کیے، اُن کا یُوناہ پر کیا اثر ہوا؟
17 مایوسی کے عالم میں یُوناہ نینوہ سے نکلے۔ وہ گھر کی طرف جانے کی بجائے مشرق کی جانب چلے گئے جہاں کچھ پہاڑوں سے شہر نینوہ دِکھائی دیتا تھا۔ اُنہوں نے وہاں ایک چھپر بنایا اور نینوہ کی طرف رُخ کر کے اِس کے نیچے بیٹھ گئے۔ شاید وہ اب بھی یہ اُمید لگائے ہوئے تھے کہ نینوہ نیست ہو جائے گا۔ یہوواہ نے اپنے اِس بندے کو رحم کا درس کیسے دیا جس نے اپنے دل کو سخت کر لیا تھا؟
18 یہوواہ نے راتوں رات کدو کی ایک بیل اُگائی۔ جب یُوناہ اُٹھے تو اُنہوں نے اِس گھنی بیل کو دیکھا جو کہ اُن کے کمزور سے چھپر سے کہیں زیادہ سایہدار تھی۔ بائبل میں لکھا ہے: ”یُوناؔہ اِس بیل کے سبب سے نہایت خوش ہوا۔“ شاید اُنہوں نے اِس معجزے کو یہوواہ کی برکت اور خوشنودی کی علامت خیال کِیا۔ لیکن یہوواہ کا مقصد یُوناہ کو یُوناہ 4:6-8۔
صرف دھوپ کی گرمی سے بچانا اور غصے کی اُس آگ کو بجھانا نہیں تھا جو اُن کے دل میں بھڑک رہی تھی۔ وہ اُنہیں ایک ایسی بات بھی سکھانا چاہتا تھا جو اُن کے دل پر اثر کرتی۔ لہٰذا اُس نے کچھ اَور معجزے کیے۔ پہلے تو اُس نے ایک کیڑا بھیجا جو کدو کی بیل کو چٹ کر گیا۔ پھر اُس نے ”مشرق سے لو چلائی“ جس سے گرمی کی شدت اِتنی بڑھ گئی کہ یُوناہ بےدم ہونے لگے۔ اُن کی ہمت جواب دے گئی اور وہ دوبارہ خدا سے موت مانگنے لگے۔—19، 20. یہوواہ نے کون سی دلیل دے کر یُوناہ کو اپنی بات سمجھائی؟
19 جب یُوناہ کدو کی بیل کے سُوکھ جانے پر غصے میں آ گئے تو یہوواہ نے ایک بار پھر اُن سے پوچھا کہ کیا اُن کا غصہ واجب ہے۔ اپنی سوچ کو ٹھیک کرنے کی بجائے یُوناہ نے خود کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ”جی ہاں، مَیں مرنے تک غصے ہوں، اور اِس میں مَیں حق بجانب بھی ہوں۔“ اب یُوناہ کو یہ بتانے کا وقت آ گیا تھا کہ یہوواہ اُن معجزوں کے ذریعے اُنہیں کون سا اہم سبق سکھانا چاہتا ہے۔—یُوناہ 4:9، اُردو جیو ورشن۔
20 یہوواہ نے یُوناہ کو اپنی بات سمجھانے کے لیے ایک دلیل دی۔ اُس نے اُن سے کہا کہ وہ ایک ایسے پودے کے مرنے پر افسوس کر رہے ہیں جو راتوں رات اُگا اور جسے نہ تو اُنہوں نے لگایا اور نہ ہی بڑھایا۔ پھر خدا نے فرمایا: یُوناہ 4:10، 11۔ *
”کیا مجھے لازم نہ تھا کہ مَیں اِتنے بڑے شہر نینوؔہ کا خیال کروں جس میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں اِمتیاز نہیں کر سکتے اور بےشمار مویشی ہیں؟“—21. (الف) یہوواہ نے یُوناہ کو کون سی بات سمجھائی اور کیسے؟ (ب) یُوناہ کی کہانی پر غور کرنے سے ہمیں کیا ترغیب ملتی ہے؟
21 کیا آپ نے غور کِیا کہ یہوواہ اِس مثال کے ذریعے یُوناہ کو کون سا اہم سبق سکھانا چاہتا تھا؟ یُوناہ نے کدو کی بیل کے لیے کچھ بھی نہیں کِیا تھا جبکہ یہوواہ نے نینوہ کے تمام لوگوں کو زندگی دی تھی اور باقی سب جانداروں کی طرح اُن کی زندگی کو برقرار رکھا تھا۔ یہ بڑی غلط بات تھی کہ یُوناہ 1 لاکھ 20 ہزار اِنسانوں اور اُن کے مویشیوں کی نسبت کدو کی ایک بیل کو زیادہ اہم سمجھ رہے تھے۔ غالباً اِس کی وجہ یہ تھی کہ یُوناہ کے دل میں خودغرضی سما گئی تھی۔ اُنہیں کدو کی بیل کے مرنے پر افسوس اِس لیے ہوا کیونکہ اُس بیل کے زندہ رہنے میں اُنہیں اپنا فائدہ نظر آ رہا تھا۔ اور غالباً اُنہیں نینوہ کے تباہ نہ ہونے پر غصہ بھی اِسی لیے چڑھا تھا کیونکہ وہ خودغرض بن گئے تھے اور خود کو غلط ثابت ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ یُوناہ کی کہانی پر غور کرنے سے ہمیں یہ ترغیب ملتی ہے کہ ہم ایمانداری سے اپنا جائزہ لیں۔ دراصل ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس میں خودغرضی کا رُجحان نہیں پایا جاتا۔ لیکن ہمیں یہوواہ کے شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ بڑے صبر سے ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم اُس کی مثال پر عمل کریں اور اپنے اندر بےغرضی، ہمدردی اور رحمدلی کی خوبی کو نکھاریں۔
22. (الف) اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہوواہ نے یُوناہ کو رحم کا جو درس دیا، اُس کا یُوناہ پر گہرا اثر ہوا؟ (ب) یُوناہ کی کہانی میں ہمارے لیے کون سا سبق پایا جاتا ہے؟
22 کیا یُوناہ اُس اہم سبق کو سمجھ گئے تھے جو یہوواہ اُنہیں سکھانا چاہتا تھا؟ یُوناہ کی کتاب یہوواہ کے سوال پر ہی ختم ہو جاتی ہے اور یہ سوال آج تک بائبل پڑھنے والوں کے ذہن میں گُونج رہا ہے۔ شاید کچھ لوگ یہ اِعتراض کریں کہ یُوناہ نے اِس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اُنہوں نے جواب دیا اور یہ جواب آج یُوناہ کی کتاب کی صورت میں موجود ہے۔ ثبوتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یُوناہ کی کتاب یُوناہ نے ہی لکھی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ یُوناہ نے اِسے اپنے گھر واپس جانے کے بعد تحریر کِیا۔ غالباً اُس وقت یہ سب واقعات ہوئے کئی سال گزر چُکے تھے اور تب تک یُوناہ زیادہ سمجھدار اور خاکسار بن گئے تھے۔ یقیناً اُنہیں اُس وقت بڑا پچھتاوا ہوا ہوگا جب اُنہوں نے اپنی غلطیوں کا ذکر کِیا ہوگا اور یہ بتایا ہوگا کہ اُنہوں نے کیسے خدا کی نافرمانی کی اور رحم کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ہٹدھرمی دِکھائی۔ بےشک یُوناہ نے یہوواہ کی ہدایات پر کان لگانے سے ایک اہم سبق سیکھا۔ اُنہوں نے خدا سے رحم کا درس پایا۔ کیا آپ بھی رحمدل بنیں گے؟—متی 5:7 کو پڑھیں۔
^ پیراگراف 6 کچھ اندازوں کے مطابق اِسرائیل کی دس قبیلوں پر مشتمل سلطنت کے دارالحکومت سامریہ کی آبادی 20 سے 30 ہزار کے درمیان تھی۔ اِس حساب سے نینوہ کی آبادی سامریہ کے مقابلے میں چار گُنا سے بھی زیادہ تھی۔ جب نینوہ اپنے عروج پر تھا تو شاید یہ دُنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔
^ پیراگراف 8 اگرچہ یہ بات عجیب لگ سکتی ہے لیکن دراصل قدیم زمانے میں دیگر موقعوں پر بھی ایسا ہوا تھا۔ یونانی تاریخدان ہیرودوتس نے لکھا کہ قدیم فارس کے لوگوں نے جب اپنے ایک مشہور فوجی افسر کی موت پر ماتم کِیا تو اُنہوں نے اپنے گھوڑوں اور مالبردار جانوروں کے بال کتر دیے اور یوں اُنہیں بھی ماتمی رسومات میں شامل کِیا۔
^ پیراگراف 20 جب خدا نے کہا کہ نینوہ کے لوگ ”اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں اِمتیاز نہیں کر سکتے“ تو اِس کا مطلب تھا کہ وہ خدا کے معیاروں سے بالکل ناواقف ہیں۔